برطانوی پارلیمان نے منگل کے روز اکثریت رائے سے وزیر اعظم تھریسا مے کے یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے ’بریگزٹ ڈیل‘ کو مسترد کیا، جس کے بعد شکوک پیدا ہوگئے ہیں آیا مارچ 29 کی تاریخ سے براعظم کے 28 ملکی بلاک سے الگ ہونے کی مجوزہ حکومتی حکمت عملی پر کیسے عمل درآمد ہوگا۔
ہاؤس آف کامنز کے ارکان نے ڈیل کے حق میں 202، جب کہ 432 نے مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے مے کے مطالبے کو مسترد کیا، جب کہ بقول اُن کے، ڈھائی سال قبل یورپی یونین چھوڑنے کے ریفرنڈم میں ووٹروں نے ’’جمہوری فیصلہ‘‘ کیا تھا۔
حزب مخالف کی لیبر پارٹی کے قائد، جیری کوربن نے کہا ہے کہ مے کی کنزرویٹو پارٹی کی حکمرانی کو ملنے والی یہ ایک ’’تباہ کُن شکست ہے‘‘، اور مطالبہ کیا کہ بدھ کے روز اعتماد کا ووٹ لیا جائے، جس کو اُنھوں نے ’’اُن (مے) کی حکومت کی کھلی نالائقی‘‘ قرار دیا۔
اسی قسم کے نتائج کی ہی توقع کی جا رہی تھی۔ لیکن، اب یہ واضح نہیں آیا بریگڑٹ کا کیا بنے گا۔
ووٹ سے پہلے، مے نے پارلیمان کے ارکان کو متنبہ کیا تھا کہ یورپی یونین کوئی ’’متبادل ڈیل ‘‘پیش نہیں کرے گا۔
مے نے کہا کہ ’’اس وقت ہم سب پر ایک بڑی ذمہ داری ہے، چونکہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس پر ہمارے ملک کی کئی نسلوں کے مستقبل کا دارومدار ہے‘‘۔