تھائی لینڈ کے وزیر اعظم نے منگل کے روز اس بات سے انکار کیا کہ ان کے ملک کی سیکیورٹی فورسز نے میانمار میں فضائی حملوں سے بھاگ کر پناہ کے لیے آنے والے دیہاتیوں کو زبردستی واپس بھیج دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اپنی مرضی سے واپس گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق، وزیر اعظم پرایوت چن اوچا کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ لڑائی سے فرار ہو کر آنے والے کسی بھی شخص کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ان کا ملک عشروں سے کرتا چلا آیا ہے۔
تھائی لینڈ کے وزیر اعظم کے اس بیان سے ایک روز قبل، میانمار کے پناہ گزینوں کو مدد فراہم کرنے والی تنظیموں کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ اُن ہزاروں افراد کو واپس بھیج رہا ہے جو میانمار کی فوج کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں سے بچ کر پناہ کے لیے تھائی لینڈ پہنچے تھے۔
تھائی لینڈ کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ابھی تک بڑی تعداد میں نقل مکانی کر کے آنے والوں کی آمد شروع نہیں ہوئی۔ اوچا کا کہنا تھا کہ ہم نے سرحد پار کر کے آنے والوں سے یہ ضرور پوچھا ہے کہ کیا انہیں اپنے علاقے میں کوئی مسئلہ ہے۔ جب انہوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں تو ہم نے اُن سے صرف یہ کہا کہ وہ پہلے اپنے علاقے میں واپس چلے جائیں۔ اوچا کہتے ہیں کہ ہم نے صرف کہا تھا، زور زبردستی نہیں کی تھی۔
اوچا کا کہنا تھا کہ ہم کبھی انہیں واپس نہیں بھجیں گے۔ اگر وہاں لڑائی جاری ہے، ہم کیوں ایسا کریں گے۔ لیکن اگر اس وقت وہاں لڑائی جاری نہیں، تو کیا انہیں واپس نہیں جانا چاہیے؟
میانمار سے متصل تھائی لینڈ کے صوبے مائی ہونگ سون میں اس وقت تین ہزار کے قریب برمی باشندوں نے پناہ حاصل کی ہے۔ صوبے کے گورنر کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ تھائی لینڈ کے علاقے میں موجود مہاجرین ایک آدھ دن میں واپس اپنے ملک چلے جائیں گے۔
کارین نسل کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے والی متعدد امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز ڈھائی سے تین ہزار افراد سرحد عبور کر کے تھائی لینڈ داخل ہوئے تھے۔
پیر کے روز تنظیموں کا کہنا تھا کہ تھائی فوجیوں نے لوگوں کو مجبور کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ واپس میانمار چلے جائیں۔
کارین کی سول سوسائیٹی تنظیموں کے ایک گروپ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو کہا جا رہا ہے کہ واپس جانا محفوظ ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ترجمان کا کہنا ہےکہ پناہ گزیں واپس جانے میں خوف محسوس کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔
تھائی لینڈ نے اس علاقے تک جہاں سے پناہ گزیں سرحد عبور کر رہے ہیں، صحافیوں کی رسائی محدود کر دی ہے۔
پچھلے ہفتے کے اواخر میں میانمار کی فوج کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں کی وجہ سے کارین نسل کے افراد نے فرار ہو کر تھائی لینڈ میں پناہ حاصل کی تھی۔ تاہم میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد یکم فروری سے ہونے والی متشدد پکڑ دھکڑ سے حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔
فوجی بغاوت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب تک کم از کم پانچ سو دس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ میانمار میں سیاسی قیدیوں کی مدد کے لیے قائم تنظیم 'اسسٹینس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز' (اے اے پی پی) کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اب تک ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کر کے جیل میں بند کیا گیا ہے۔
منگل کے روز بھی میانمار میں مظاہرے جاری رہے۔
پیر کے روز امریکہ نے میانمار کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ اس وقت تک منسوخ کر دیا، جب تک کہ ایک جمہوری حکومت اقتدار نہیں سنبھالتی۔
امریکہ کے تجارتی نمائندگی کے محکمے (آفس آف یو ایس ٹریڈ ریپری زینٹیٹو) کا پیر کے روز کہنا تھا کہ امریکہ میانمار کے ساتھ 2013 کے ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ فریم ورک ایگریمنٹ کے تحت کئے گئے تمام معاہدے منسوخ کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکہ نے میانمار کی دو بڑی فوجی ہولڈنگ کمپنیوں کے ساتھ اپنا لین دین بند کر دیا تھا۔ یہ دونوں کمپنیاں میانمار کی معیشت میں بہت اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔