جنوبی ایشیا کے ملک میانمار میں بدھ مت کے ایک راہب ویلاتھا نے دارالحکومت ینگون میں سانپوں کے لیے ایک پناہ گاہ قائم کر رکھی ہے جو سیکڑوں سانپوں کا مسکن ہے۔
ویلاتھا کی پناہ گاہ میں پائتھن، وائپرز اور کوبرا جیسے خطرناک سانپ بھی موجود ہیں۔
جب سے یہ پناہ گاہ قائم ہوئی ہے علاقہ مکینوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ادارے حتیٰ کہ فائر ڈپارٹمنٹ تک مختلف مقامات سے پکڑے گئے سانپوں کو یہاں لاکر جمع کرا دیتا ہے۔
ویلاتھا نے پانچ سال پہلے سانپوں کو رکھنے کی غرض سے جو پناہ گاہ بنائی تھی اسے آسان زبان میں 'سانپ گھر' بھی کہا جاسکتا ہے جو بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے ینگون میں واقع 'سیکتھا ٹھوکھا ٹیٹھو' نامی مندر میں قائم ہے۔
یہ دارالحکومت کا تجارتی علاقہ ہے جہاں بڑے پیمانے پر کاروباری سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اگر ویلاتھا سانپوں کے تحفظ کے لیے پناہ گاہ کے قیام کی کوشش نہ کرتے تو اب تک سیکڑوں سانپ یا تو ہلاک کر دیے جاتے یا پھر اُنہیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا۔
وہلاتھا کا کہنا ہے کہ لوگ عموماً پکڑے گئے سانپوں کو بیچنے کے لیے سب سے پہلے خریدار کو تلاش کرتے ہیں لیکن میانمار میں بدھ مت کے پیروکاروں کے نزدیک ان سانپوں کو راہب کے حوالے کرنا 'نیکی' سمجھا جاتا ہے۔
ویلاتھا کہ بقول "یہ سانپ میرے بچوں کی طرح ہیں۔" شاید یہی وجہ ہے کہ ویلاتھا بہت پیار سے سانپوں کو اپنے زعفرانی رنگ کے لباس سے صاف کرتے اور اپنے ہاتھوں سے اُنہیں خوراک دیتے ہیں۔
ویلاتھا کا ماننا ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے تشکیل دی گئی ماحولیاتی سائیکل کو محفوظ بنانے میں کوشاں ہیں۔
ویلاتھا سانپوں کی دیکھ بھال اور اُنہیں خوراک فراہم کرنے کی غرض سے ہر ماہ تقریباً 300 ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ اس رقم کے لیے اُنہیں عطیات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
اُن کے بقول جیسے ہی وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب سانپ جنگل میں زندگی بسر کر سکتا ہے اور اس میں دوسرے جانوروں سے خود کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت آگئی ہے تو وہ اُنہیں جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔
ماحولیات کے تحفظ پسندوں کے مطابق جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار، جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار کا عالمی مرکز ہے جہاں سے بڑے پیمانے پر سانپ پڑوسی ممالک چین اور تھائی لینڈ اسمگل کیے جاتے ہیں۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے مطابق میانمار میں پائی جانے والی سانپ کی نسل برمیز پائتھن معدوم ہوتی جا رہی ہے جب کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں بھی اس نسل کو نادر و نایاب تصور کیا جاتا ہے۔
وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کے رکن کلیار پلیٹ نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ سانپ اگر انسانوں کے قریب رہیں تو وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے اس لیے اُن کے مزاج میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے جو انسانوں پر حملوں کی صورت میں باہر نکلتا ہے۔
ان کے بقول انسان خود کو بچانے کے لیے ان سانپوں کو ہلاک کر دیتے ہیں لہذا بہتر یہی ہے کہ سانپوں کو انسانی آبادی سے دور جنگل میں ہی رکھا جائے۔