پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں ایک بار پھر عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات پر مقامی افراد تشویش میں مبتلا ہیں۔ تاہم، سرکاری طور پر ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی گئی۔
گزشتہ چند دنوں سے ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) کے بعض کارکن اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بونیر کے علاقے سالازئی اور ملحقہ پہاڑیوں میں طالبان عسکریت پسند لوگوں سے بھتہ وصول کر رہے ہیں۔
ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی عبدالرحمان عابد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نہ صرف عسکریت پسند اس علاقے میں موجود ہیں بلکہ ان کے خلاف وقتاً فوقتاً پولیس اہلکار کارروائیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بقول، چند دن قبل عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں ایک پولیس اہلکار ظاہر اللہ زخمی بھی ہوا تھا۔
کئی برس بعد رواں سال اگست کے وسط میں طالبان عسکریت پسندوں نے ضلع بونیر کے ایک ہی پوسٹ بکس میں 35 سیاسی، سماجی شخصیات، تاجروں اور زمینداروں کے نام خطوط ڈالے تھے۔ ان خطوط میں ان افراد کو حکومت اور ریاستی اداروں سے تعاون نہ کرنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ ان افراد کو طالبان کی مالی مدد کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔
دھمکی آمیز خطوط موصول کرنے والوں میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ حزب اختلاف عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بھی شامل تھے۔
ضلع بونیر سے سابق رکن صوبائی اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) کے رہنما قیصر ولی خان نے علاقے میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ ان کی سرگرمیاں محدود ہیں جب کہ پولیس اور دیگر ادارے ان عناصر کے خلاف سرگرم ہیں۔
مالاکنڈ ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اعجاز خان ضلع بونیر میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلع بونیر اور اس ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد ملحقہ پہاڑیوں میں پناہ لے لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی اطلاعات پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے زیادہ تر جرائم پیشہ یا مشتبہ افراد کو مار بھگایا تھا۔
لیکن، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ضلع بونیر میں تقسیم کئے جانے والے دھمکی آمیز خطوط عسکریت پسندوں کے مقامی کمانڈر عزیز الرحمان کی جانب سے لکھے گئے تھے۔ اور پولیس ریکارڈ کے مطابق، عزیز الرحمان کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان ہی سے منسلک ہیں۔
خیال رہے کہ 2009 میں حکومت پاکستان نے مالاکنڈ ڈویژن میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا تھا۔ جسے آپریشن راہ راست کا نام دیا گیا تھا۔ اس فوجی آپریشن کے لیے سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں کو خالی کرایا گیا تھا۔ ان دنوں بھی یہ اطلاعات تھیں کہ عسکریت پسند ضلع بونیر تک پہنچ گئے ہیں اور وہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کر سکتے ہیں۔