رسائی کے لنکس

کیا ٹیک کمپنیوں میں ملازمتوں میں کٹوتیاں معیشت پراثرانداز ہوسکتی ہیں؟


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایسا ادارہ کہ جہاں بہترین معاوضہ ملے، جس کا اسٹیٹ آف دی آرٹ دفتر ہو ،آن سائٹ جم، یوگا اور ویلنس سینٹر، ڈاکٹرز اور کائروپریکٹرز کی سہولت ہو، سونے کے لیے نیپ پوڈز ہوں۔صبح دوپہر شام تازہ پھلوں، اسمودیز سے لیکر کئی کئی اقسام کے مفت کھانے ملیں۔ آپ کے نجی کام نمٹانے کے لیے علیحدہ ملازمین کی فورس موجود ہو تاکہ آپ کا وقت بچ سکے۔مفت مساج سروس، چھٹیوں اور ویکیشنز کی پر کشش پالیسیاں ہوں۔بچے کی پیدائش پر ایکسٹرا کیش اور ایکسٹرا چھٹیاں ہوں، مزید تعلیم کی لیے مالی مدد ملے۔

یہ کسی یوٹوپیئن ادارے کی منظر کشی نہیں بلکہ یہ وہ مراعات اور آسائشیں ہیں جو بڑی ٹیک کمپنیاں ملازمت کو پرکشش بنانے کے لیے اپنے کارکنوں کو فراہم کرتی رہی ہیں۔

آج کل یہی ٹیک سیکٹر اپنے کارکنوں کو نوکریوں سے نکال رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ٹیک کمپنیوں میں ملازمین کے فارغ کیے جانے کی خبریں نہ آرہی ہوں۔

کیا وجہ ہے کہ کل تک خواب جیسی ملازمتوں کو حقیقت کا روپ دینے والی کمپنیاں آج اپنے کارکنوں کی تعداد کم کرنے میں مصروف ہیں؟ کیا یہ معیشت کے لیے کسی خطرے کی علامت ہیں؟ کیونکہ امریکی معیشت کا اثر بعد ازاں دنیا بھر کی معیشتوں پر نظر آتا ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ٹیک اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کے ماہر فواد زکریا نے وی او اے کو ایک انٹرویو میں گفتگو کے دوران اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی انڈسٹری کے اتار چڑھاؤ کا حصہ ہے۔مگر اس کی وجوہات ضرور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ کافی لمبا دورتھا۔ سن 2008 اور 2009 کی کساد بازاری کے بعد امریکہ میں سود کی شرح تقریباً صفر تک پہنچ گئی ۔ اس کے علاوہ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور طلب میں اضافے سے ان ٹیک کمپنیوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا اور ہنرمند افراد کی تلاش شروع ہوئی۔

دوسری وجہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ تھا جس کے باعث روزمرہ کی زندگی منجمد ہو گئی تھی لیکن ٹیکنالوجی کے کاروبار میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ زوم یا ویڈیو چیٹس اور ویڈیو سیمینارز ، کانفرنسز کو لیں یا ای کامرس اور فوڈ اینڈ گراسری ڈلیوریز کو لیں ۔ ان تمام شعبوں کے لیے درکار انفرااسٹرکچر مثلا کلاؤڈ وغیرہ کی ڈیمانڈ اتنی تیزی سے بڑھنے لگی کہ ٹیکنالوجی کمپنیز نے بڑی تیزی سے بڑھنا شروع کیا۔ان کی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں ان کے ملازمین میں اضافہ ہوا اور ان کی ہائرنگ کی رفتار میں بھی تیزی آئی ۔

لیکن کیونکہ یہ سب کچھ دو سال میں تیزی سے ہوا تو مارکیٹس یہ سوچنے لگیں کہ ترقی کی یہ شرح پائیدار ہو گی لیکن جیسے ہی قرنطینہ اور لاک ڈاون کے خاتمے کے بعد دفاتر، بازار اور سفر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو ٹیکنالوجی ترقی تو کررہی تھی مگر اس کی کی ترقی کی رفتار معمول پر واپس آگئی۔

اور اس کے بعد آیا مہنگائی کا طوفان جسے کنٹرول کرنے کے لیے وفاق نے سود کی شرح میں اضافہ شروع کیا ۔

فواد کا کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافہ معیشت کی سست روی اور کساد بازاری کے خطرے کی ایک علامت تھا جسے بھانپ کرسرمایہ کار مزید محتاط ہو گئے اور انہوں نے سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا اور سرمایہ ٹیک سیکٹر سے باہر نکلنے لگا تو ٹیک کمپنیوں کی قدر میں کمی شروع ہوئی۔

ٹیک کمپنیوں نے سرمایہ کاری میں کمی اور تنزلی کی شکار قدر اور گرتے ہوئے اسٹاکس کی وجہ سے یہ بھانپ لیا کہ آنے والا وقت اچھا نہیں اور اس کی تیاری میں انہوں نے میں اپنے اخراجات میں کمی کی کوششیں شروع کر دیں اور ایسی کوششوں میں میں پہلی چھری چلتی ہے ملازمین کی تعداد پر۔

ٹیکنالوجی کے شعبے میں ملازمتوں کی کٹوتی پر نظررکھنے والی ویب سائٹ ،لے آفس ڈاٹ ایف وائی آئی کے مطابق نئے سال کے پہلے مہینے میں68 ہزار سے زائد افراد اپنی ملازمتیں گنوا چکے ہیں۔گزشتہ مہینوں کو ملا کر یہ تعداد دو لاکھ سے اوپر بنتی ہے۔گزشتہ تین ماہ میں گوگل نے 12 ہزار ، میٹا نے 11 ہزار، مائیکروسوفٹ نے 10 ہزار ، ایمازان نے دو قسطوں میں 18 ہزار ، سیلز فورس نے 8 ہزار ، سسکو ، فلپس اور آئی بی ایم نے چار چار ہزار ملازمین کو برطرف کیا۔

لیکن ٹیک کمپنیوں کی جانب سے نکالے گئے ملازمین کی تعداد نکالے گئے دیگر ملازمین کی تعداد سے کیا مناسبت رکھتی ہے، اس بارے میں فواد زکریا کا کہنا تھا کہ گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس نے تقریباً12 ہزار ملازم بر طرف کیے مگر آپ صرف پچھلے دو سال میں گوگل کے ملازمین کی بھرتی کی شرح پر نظر ڈالیں تو 2022 کی صرف تیسری سہ ماہی میں اس نے 13 ہزار نئےملازمین رکھے تھے یعنی تو ایک سہ ماہی میں جتنے ملازم رکھے گئے ان کی تعداد برطرف کیے گئے ملازمین کی تعداد کے تقریبا برابر تھی ۔

اسی طرح پچھلے برسوں میں گوگل ایمازن اور میٹا نے بڑی تیزرفتاری سے لوگوں کو ملازمتیں دی ہیں ۔ تو اگر آپ گروتھ سائز کو دیکھتے ہوئے لے آف سائز دیکھیں تو نمبر بہت بڑا نہیں ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

فواد نے مزید کہا کہ سلیکون ویلی میں بے روزگاری کی شرح دو فیصد ہے۔ اور ملازمتوں سے بر طرف کیے گئے ملازمین سے کیے گئے سرویز کے مطابق ان میں سے 40 فیصد کو ایک ماہ کے اندر ہی دوسری نوکری مل رہی ہے۔ 80 فیصد کو تین ماہ سےکم عرصے میں ملازمت مل رہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لیبر مارکیٹس بہت مضبوط ہیں ۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ معیشت اس وقت سست ہے لیکن ٹیک سیکٹر میں ملازمتوں میں ہونے والی کٹوتیوں کے معیشت پر اثر انداز ہونے کے امکانات زیادہ نہیں کیونکہ امریکی ورک فورس کا محض دو فیصد ہی ٹیک فرمز میں کام کرتا ہے اورفی الحال دوسرے شعبوں میں ملازمتوں میں کٹوتیوں کے آثار نظر نہیں آرہے۔ بلکہ بڑی ٹیک کمپنیوں میں ڈاون سائزنگ کا وال اسٹریٹ پر مثبت اثر ہی نظر آیا ہے اور ان کمپنیوں کے اسٹاکس کی قدر بہتر ہوئی ہے، جو کہ خوش آئند ہے۔

XS
SM
MD
LG