رسائی کے لنکس

امریکہ سے جنگ بندی پر بات نہیں ہو رہی: افغان طالبان


دوحہ میں ہونے والے طالبان اور امریکی نمائندوں کے درمیان حالیہ مذاکرات کی تصویر جو قطر کی وزارتِ خارجہ نے جاری کی ہے۔
دوحہ میں ہونے والے طالبان اور امریکی نمائندوں کے درمیان حالیہ مذاکرات کی تصویر جو قطر کی وزارتِ خارجہ نے جاری کی ہے۔

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ جاری ان کے مذاکرات میں افغانستان میں جنگ بندی پر بات نہیں ہو رہی ہے۔

جمعے کو وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل کے ساتھ ایک انٹرویو میں طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ تنازع کے افغان فریقوں کے درمیان بات چیت کا معاملہ بھی طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ اس وقت ان کی ترجیح یہ ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں تمام غیر ملکی فوج افغانستان سے واپس چلی جائے جس کے بعد ان کے بقول افغان خود اپنے باہمی تنازعات بات چیت سے حل کرلیں گے۔

طالبان ترجمان کے بقول جب ان کی سرزمین پر سے امریکہ کا قبضہ ختم ہوجائے گا تو پھر وہ بااثر افغان شخصیات اور دانش وروں کے ساتھ اس بارے میں وسیع تر مشاورت کریں گے کہ مستقبل کی افغان حکومت کا نقشہ کیا ہونا چاہیے۔

امریکہ کے ساتھ کسی معاہدے کے امکان سے متعلق سوال پر سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں تسلسل سے پیش رفت ہو رہی ہے لیکن یہ ابھی مکمل نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے۔

طالبان ترجمان نے بتایا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری بات چیت میں دو روز کا وقفہ اس لیے کیا گیا تھا تاکہ فریقین اس مجوزہ معاہدے کے متن کی تفصیلات طے کرلیں جس میں تنازع کے حل کا طریقۂ کار وضع کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ فریقین نے مذاکرات میں وقفہ باہم مشاورت اور اپنی اپنی قیادت سے صلاح مشورے کی غرض سے کیا تھا جس کے بعد ہفتے کو مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔

سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ منگل اور بدھ کو طالبان اور امریکی ورکنگ گروپس کے درمیان ہونے والی بات چیت کا محور افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور اس کی نوعیت تھا۔

ان کے بقول بات چیت میں غیر ملکی افواج کے انخلا کی صورت میں افغان سرزمین کو مستقبل میں کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کی طالبان کی یقین دہانی پر بھی بات کی گئی۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں پوری طرح سنجیدہ ہیں کیوں کہ ان کے بقول دونوں فریق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ترجمان کے بقول اب اختلافات دور کرنے کا واحد راستہ بات چیت اور سفارتی ذرائع کا استعمال ہے جس کے نتیجے میں ان کے بقول دشمنی ختم کرکے باہم تعاون اور اچھے تعلقات کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔

دوحہ میں جاری مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں۔

خلیل زاد نے جمعرات کو مذاکرات کا ابتدائی دور مکمل ہونے کے بعد اپنے ٹوئٹس میں بات چیت کو مثبت اور نتیجہ خیز قرار دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG