افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی، زلمے خلیل زاد نے جمے کو اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب ایمبیسڈر کابولوف سے ملاقات کے دوران افغانستان امن مذاکرات کی راہ میں درپیش رکاوٹ یعنی سفری پابندیوں پر بات چیت کی ہے اور یہ کہ وہ طالبان مذاکرات کاروں کو اقوام متحدہ کی جانب سے سفری پابندیوں سے استثنیٰ دلانے کے امکانات پر غور کر یں گے۔
جمعے کے روز افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ طالبان کے ایک اہم رہنما ملا غنی برادر آئندہ ہفتے قطر میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مذاکراتی ٹیم ملا برادر ہی کی نامزد کردہ ہے۔
تقریبا ایک عشرہ پاکستانی قید میں گزارنے کے بعد، ملا برادر کو امریکہ کے مطالبے پر پاکستان نے رہا کیا تھا۔ تاکہ وہ قطر مذاکرات میں براہ راست حصہ لے سکیں۔
ان کی رہائی کے فوراً بعد افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکی ایلچی اور مذاکرات میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹویٹ میں ان کی رہائی کو افغان امن کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا تھا۔
ایک افغان سینیر صحافی انیس الرحمان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ ملا برادر کا امریکہ کے ساتھ بات چیت میں براہ راست شرکت نہ کرنے کی خبر کو ایک منفی خبر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ملا عمر کے نائب ہونے کی وجہ سے ان کو طالبان کے تمام دھڑوں میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
افغان ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملا برادر اس وقت پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستانی اداروں نے ان کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لیا ہے اور دوسری وجہ ان کی سفری دستاویزات کا مستند نہ ہونا ہے۔
امریکہ میں مقیم سیکورٹی کے ایک ماہر، کامران بخاری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملا برادر کے مذاکرات میں شرکت کرنے سے اس عمل میں تیزی آنے کے امکانات تھے لیکن ان کی نظر میں اس فیصلے سے شاید طالبان اپنی مزید شرائط منوانے کے لئے مذاکراتی عمل کو طول دینا چاہتے ہوں۔
کامران بخاری کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ طالبان ایسا پاکستان کے کہنے پر کر رہے ہوں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ وجہ جو بھی ہو اس سے مذاکراتی عمل طول پکڑ سکتا ہے۔
پاکستان سے دفائی تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈئر حامد سعید نے افغانستان میں پائے جانے والے اس تاثر کو رد کیا کہ ملا برادر کے مذاکرات میں شرکت نہ کرنے کے پیچھے پاکستان ہے۔ تاہم ان کہنا تھا کہ ملا برادر کی پاکستان میں موجودگی کوئی اچنبے کی بات نہیں کیونکہ وہ کئی برسوں سے پاکستان ہیں۔
وہ کہتے ہیں ان کی شرکت نہ کرنے کی ایک وجہ طالبان کے آپس میں اختلافات ہو سکتے ہیں۔
ملا غنی برادر کو 2010 میں پاکستان میں حراست میں لیا گیا تھا اور گزشتہ برس امریکہ کے مطالبے پر انہیں رہائی ملی تھی۔