افغان طالبان نے ایک بار پھر کابل حکومت کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔
طالبان نے یہ بات جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہی ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بیان میں کہا ہے کہ "غیر ملکی افواج کی موجودگی میں طالبان کو مذکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔"
طالبان ترجمان نے اپنے بیان میں افغان 'ہائی پیس کونسل' کے گزشتہ ماہ کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں کونسل نے طالبان سے امن عمل میں شامل ہونے کو کہا تھا۔
افغانستان میں طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تشکیل دی جانے والی 'ہائی پیس کونسل' کے ایک عہدیدار محمد اکرم خپلواک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ کونسل مستقبل قریب میں طالبان سے امن مذاکرات کے لیے پر امید ہے۔
دوسری طرف طالبان نے اپنے بیان میں ہائی پیس کونسل کے عہدیداروں کے عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی میں "غیر مجاز فریق" سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
طالبان عسکریت پسندوں کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔
اکرم خپلواک نے وی او اے کو بتایا ہے کہ طالبان کے بیان کے باوجود بات چیت کے لیے فضا سازگار ہے اور طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں قیامِ امن کی افغان عوام کی صداؤں کو سنیں۔
امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
امریکی معاون نائب وزیرِ خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے رواں ہفتے مکمل ہونے والے افغانستان اور پاکستان کے اپنے دورے کے بعد واشنگٹن پہنچنے پر کہا تھا کہ پاکستان کو افغان طالبان پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ ماضی کی نسبت افغان طالبان پر اسلام آباد کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے لیکن امریکہ اور افغانستان پاکستان کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران اسلام آباد میں ترجمان دفترِ خارجہ محمد فیصل نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن و سلامتی کے لیے پرعزم ہے اور وہ افغانستان کے مسئلہ کے پرامن حل کے لیے افغان صدر اشرف غنی کی مذاکرات کی پیش کش کی حمایت کرتا ہے۔
تاہم ترجمان نے وضاحت کی تھی کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں اور اس بارے میں افغان تنازع کے تمام فریقوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔