امریکی معاون نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے افغانستان اور پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد کہا ہے کہ ہمیں افغانستان میں گزشتہ عید کے موقع پر سہہ روزہ فائربندی کیلئے حکومت اور طالبان کی طرف سے رضامندی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امن مذاکرات کے ذریعے مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے اپنی کوششوں کو مربوط انداز میں آگے بڑھانا ہوگا۔
ایلس ویلز نے افغانستان اور پاکستان کا چار روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے، جس دوران اُنہوں نے افغانستان میں قیام امن سے متعلقہ تمام فریقین سے بات چیت کرتے ہوئے اہم گفت و شنید کی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے علاوہ طالبان اور عسکریت پسندوں کی طرف سے امن کیلئے حمایت غیر معمولی ہے جو سہ روزہ فائر بندی کے دوران نظر آئی۔
طالبان کے بہت سے لوگوں نے اس فائر بندی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شہروں کا آزادانہ طور پر دورہ کیا اور اُنہیں سوشل میڈیا پر آئس کریم کھاتے، سیلفیاں بناتے اور افغان فوجیوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس موقع پر طالبان کے کئی کارکنوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلسل لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں۔
تاہم، جب افغان صدر اشرف غنی نے فائر بندی میں توسیع کرنے کا اعلان کیا تو طالبان سے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ طالبان نے صدر غنی کی طرف سے مذاکرت کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے متمنی ہیں۔
طالبان لیڈر مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ نے اپنے عید کے پیغام میں کہا تھا، ’’ان تمام مصیبتوں سے خود کو بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکی اور دیگر قابض فوجیں ہمارے ملک سے نکل جائیں اور افغانستان میں وسیع تر حمایت کے ساتھ ایک جامع اور آزاد اسلامی حکومت قائم ہو۔‘‘
اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اشارہ دیا تھا کہ اُن کا ملک افغانستان میں امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی خاطر فوجیوں کے انخلاء پر بات چیت کرنے کیلئے بھی راضی ہے۔
معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کہتی ہیں کہ اس بیان کے بعد طالبان کی طرف سے افغان حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے موجود تمام اعترضات ختم ہو جانے چاہئیں۔
افغانستان اور پاکستان کیلئے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی رچرڈ اولسن نے کہا ہے کہ امریکی سفارتکاری کا اصل مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تنازعے کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے اور ایلس ویلز اس مقصد پر خصوصی طور پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
امریکہ اور افغانستان طویل عرصے سے کہتے آئے ہیں کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں موجود ہے۔ تاہم، پاکستان اس بات سے انکار کرتا رہا ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق، ایلس ویلز نے افغانستان میں یہ بیان دیا تھا کہ طالبان لیڈرز افغانستان میں موجود نہیں ہیں اور وہی مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان سے مسلسل اور فیصلہ کن کارروائیوں کی توقع رکھتا ہے۔ لیکن، ابھی اس بارے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
واشنگٹن کی معروف تھنک ٹینک، یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں ایشیا سینٹر کے معاون نائب صدر معید یوسف کہتے ہیں کہ جہاں تک پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی جنوبی ایشیائی پالیسی کا تعلق ہے، یہ صرف طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے متعلق کارروائی کے ایک نقطے پر مبنی ہے۔ پاکستان سے امریکی مطالبہ یہ ہے کہ یا تو اُنہیں مذاکرات کی میز پر لا کر سنجیدگی سے مذاکرات شروع کرائے جائیں یا پھر اُنہیں ہلاک کر کے، گرفتار کر کے یا پاکستان سے بے دخل کر کے ختم کیا جائے۔
معید یوسف کے خیال میں ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کے دوران امریکہ نے پاکستان کو یہی پیغام دیا ہے اور جب تک اس بارے میں مناسب پیش رفت نہیں ہوتی، کسی اور موضوع پر بات نہیں ہوگی۔
امریکی سفارتخانے کے بیان کے مطابق، ایلس ویلز نے پاکستانی حکام کے علاوہ یورپی، چینی اور افغان سفیروں سمیت متعدد سفراء سے ملاقاتیں کی ہیں۔ یورپی ممالک افغانستان میں امریکہ کے اہم نیٹو اتحادی ہیں۔ لہذا، معید یوسف کے خیال میں اُنہیں افغانستان کے سیاسی تصفیے میں شرک کرنا ضروری ہوگا۔
سفیر اولسن کا کہنا ہے کہ چینی سفیر سے ایلس ویلز کی ملاقات کا مقصد امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی گروپ کو دوبارہ فعال بنانا ہے جو دو برس سے بے اثر رہا ہے۔ اس چار فریقی گروپ کی تشکیل کا مقصد طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے آمادہ کرنا تھا۔
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایلس ویلز کے دورے کے دوران افغانستان میں جاری تنازعے کے سیاسی حل کے سلسلے میں پاکستان کے کردار پر توجہ مرکوز کی گئی۔
پاکستانی مسلح افواج کے شعبہٴ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ نے بھی اپنے بیان میں اسی انداز کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں فریق نے علاقے میں قیام امن اور اس سلسلے میں کئے جانے والے مناسب اقدامات کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کیا۔