رسائی کے لنکس

افغان طالبان سے مذاکرات کیے جائیں، غیر سرکاری اجلاس کے شرکا کا امریکہ پر زور


'پاکستان اور افغانستان کے درمیان پائیدار روابط ضروری ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:40 0:00

پاکستان میں جمعے کے روز ایک غیر رسمی بین الاقوامی اجلاس کے شرکا نے سفارش کی ہے کہ امریکہ طالبان باغیوں سے کھل کر براہ راست بات چیت کرے، تاکہ مہلک افغان لڑائی کا مکالمے کے ذریعے حل تلاش کرنے میں مدد مل سکے۔

موجودہ اور سابق افغان اور پاکستانی پارلیمانی نمائندگان، سفارت کاروں، فوجی اہلکاروں اور مغربی دانش وروں نے اسلام آباد میں منعقدہ اس دو روزہ ’ٹریک ٹو‘ مکالمے میں شرکت کی، تاکہ اس بات پر تبادلہٴ خیال کیا جائے آیا طویل مدت سے امن عمل کا راستہ تلاش کرنے کی جاری کوششیں بارآور ثابت ہوں، تاکہ لڑائی میں ملوث فریق کی مدد کی جا سکے۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیئے۔ اِس سے افغان حکومت کی جانب سے جاری امن عمل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا‘‘۔

اس غیر سرکاری مکالمے کا انعقاد اسلام آباد میں قائم ’ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ‘ نے ’رائل ڈینش ڈفنس کالج‘ کے تعاون سے کیا تھا۔

شرکا نے افغانستان اور پاکستان کے مابین انٹیلی جنس کے تبادلے کی ضرورت پر زور دیا، جس عمل میں امریکہ شریک ہو، اور جس کے لیے ضروری ہوگا کہ افغان باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کرنے میں مدد دی جائے۔

پاکستان میں جمعے کے روز ہونے والے اس غیر سرکاری اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن کے سمجھوتے کے لیے ضروری ہوگا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو ’’ناخوشگوار رعایتیں‘‘دیں، تاکہ بالآخر یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔

بتایا جاتا ہے کہ سینئر طالبان راہنما پاکستان میں چھپے بیٹھے ہیں، اور اپنے امریکی پارٹنروں کے ساتھ مل کر افغان اپنے ہمسایہ ملک سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ اِن باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اُن کا طالبان پر محدود نوعیت کا اثر و رسوخ ہے؛ ’’جو کہ گذشتہ برسوں کے دوران کم ہو چکا ہے۔ اپنے طور پر طالبان امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، اور وہ افغان حکومت کو امریکہ کی حمایت یافتہ قرار دے کر مسترد کرتے ہیں‘‘۔

امریکی اہلکاروں نے طالبان کی جانب سے بات چیت کے مطالبے کے اعادے کو رد کیا گیا ہے، یہ بات کہتے ہوئے کہ یہ بات ضروری ہے کہ امن عمل کی قیادت افغان حکومت خود کرے اور اس کا انعقاد افغان زیر سایہ ہو۔

XS
SM
MD
LG