افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے عارضی جنگ بندی کی پیش کش کی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اس پیش رفت سے آگاہ طالبان عہدے دار نے تصدیق کی ہے کہ امریکی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کو اس پیش کش سے آگاہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت طالبان سات سے 10 روز کے لیے جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
طالبان کے اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے اندر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جنگ بندی کے باعث دوبارہ لڑائی کے لیے تیار ہونا مشکل ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض جنگجوؤں کی یہ رائے تھی کہ جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد اُسی جوش و جذبے سے میدان جنگ میں جانا آسان نہیں ہو گا۔ ان جنگجوؤں کا استدلال ہے کہ طالبان کی کارروائیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے امریکہ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور ہوا۔
اس ضمن میں طالبان نے قطر میں ایک دستاویز زلمے خلیل زاد کے حوالے کی ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے۔
ماہرین طالبان کی اس نئی پیش کش کو امریکہ، طالبان مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے طالبان کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام قرار دے رہے ہیں۔
افغان امن عمل سے متعلق پیش رفت پر پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اسے اچھی خبر قرار دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کچھ عرصے سے امریکہ اور افغانستان کے درمیان مذاکرات جاری تھے اور پاکستان اس بات کا خواہش مند تھا کہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہو۔ ان کے بقول "ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان، افغانستان اور اس خطے کو امن و استحکام کی ضرورت ہے۔ آج اس سلسلے میں ایک اچھی پیش رفت سامنے آئی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے پرتشدد واقعات میں کمی پر آمادگی ظاہر کی ہے اور اس سے امن معاہدے کی طرف پیش رفت ہوئی ہے۔
وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ خطے میں امن قائم ہو اور اس کا فائدہ افغانستان اور پاکستان کی عوام کو بھی ہو۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات گزشتہ سال فروری میں دوحہ میں شروع ہوئے تھے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے لیے سرگرداں ہیں۔
مذاکرات کے متعدد ادوار کے بعد گزشتہ سال ستمبر میں فریقین حتمی سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ لیکن امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کا عذر پیش کرتے ہوئے مذاکرات معطل کر دیے تھے۔
اس سے قبل زلمے خلیل زاد ایک بیان میں واضح کر چکے ہیں کہ امن معاہدے میں افغان فریقین کے درمیان سمجھوتہ بھی شامل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امن معاہدے میں انسانی حقوق کی پاسداری، اقلیتوں کے تحفظ اور خواتین کے حقوق کی بھی ضمانت شامل ہو گی۔
علاوہ ازیں مستقل جنگ بندی، طالبان جنگجوؤں اور کابل حکومت نواز عسکری گروہوں کے مستقبل کا بھی فیصلہ کیا جائے گا۔
لیکن طالبان کابل حکومت سے مذاکرات سے گریزاں رہے ہیں۔ جو ان کے بقول امریکہ کی کٹھ پتلی ہے۔
طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں مستقبل جنگ بندی کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ یہاں سے اپنی فوج نکالے۔ لیکن امریکی حکام کا یہ اصرار رہا ہے کہ طالبان کو افغانستان میں اپنی پُرتشدد کارروائیاں ترک کرنا ہوں گی۔
طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان پر اپنا اثر و رُسوخ رکھتے ہیں۔ طالبان جنگجو وقتاً فوقتاً امریکہ اور افغان فورسز کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن افغانستان میں جاری اس لڑائی کے دوران شہری ہلاکتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔