افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ بیشک ہم افغان کمزور اور غریب ہیں لیکن، افغانستان ہماری سرزمین اور ہماری ذمہ داری ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ افغانستان افغانوں کا ملک ہے۔ چاہے وہ کتنے بھی کمزور ہیں، یا غریب ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ہماری سرزمین ہے۔ ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔
امن عمل سے متعلق سوال پر، حامد کرزئی نے کہا کہ اگر امریکہ امن عمل کے بعد بھی یہاں رہنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر یہ معاملہ وسیع اور بڑے مقاصد کا غماز ہو گا۔ اس کے عالمگیر مقاصد بھی ہوں گے۔
بقول ان کے ’’ہم رقابت کے دور کی واپسی نہیں چاہتے، نہ ہی عالمی طاقتوں کے مابین دشمنی میں شدت کے حق میں ہیں‘‘۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی دستاویز کے معاملے پر سابق افغان صدر نے کہا کہ ’’اس میں سے زیادہ تر باتیں سچ پر مبنی ہیں‘‘۔
بقول ان کے، ’’امریکی حکومت کی جانب سے یہی کچھ امریکی عوام کے ساتھ ہوا۔ یعنی وہ کچھ ہوا جو باتیں اعلانات اور بیان کردہ مقاصد سے متصادم تھیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ یہ باتیں بیان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ’’یہی وجہ تھی کہ جب میں ایسی باتوں کے خلاف بولتا تھا تو مجھے چپ کروا دیا جاتاتھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان باتوں کو صیغہ راز میں رکھنے کے حامی تھے، تاکہ لوگوں کو ان کا علم نہ ہو سکے۔ حقیقت یہی ہے‘‘۔
افغانستان میں امریکی موجودگی سے متعلق ایک سوال پر حامد کرزئی نے کہا کہ اگر امریکہ امن عمل اور اپنی فوج کے انخلا کے بعد بھی افغانستان میں رہنے کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ یہ بات یقینی بنائے کہ افغانستان میں امن و امان قائم ہو اور افغان عوام عزت کے ساتھ زندگی بسر کریں، اور یہ کہ افغان عوام انھیں اس بات کی اجازت دیتے ہوں۔
سابق افغان صدر نے کہا کہ ’’محض چالوں کی مدد سے یا ڈر خوف پھیلا کر افغانستان میں نہیں رہا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ افغان عوام کے ساتھ حقیقی مکالمے کے لیے وقت درکار ہے کافی نہیں۔ افغان لویہ جرگہ کے لیے افغان عوام کی منظوری ضرور حاصل کی جانی چاہیے‘‘۔
خطے کے ملکوں کے ایجنڈا کے بارے میں، انھوں نے کہا کہ ’’روس اور چین ہماری دو اہم طاقتیں ہیں، جو ہمارے ہمسائے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی سوچ میں ہم آہنگی ہو، اور وہ افغانستان کو مقابلے کی مشق گاہ نہ بنائیں‘‘۔
حامد کرزئی نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ایسا دیس ہو جہاں سمجھ بوجھ اور تعاون کو فروغ ملے، نہ کہ یہاں اہم طاقتوں کے درمیان باہمی مقابلہ شروع ہو جائے۔ امریکہ کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد، افغان ہی اپنی ذمہ داری سنبھالیں‘‘۔
رواں سال ستمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے جاری مذاکرات کو ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم بعد میں قطری دارالحکومت دوحہ میں افغان مسئلے کے حل کے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تھا۔ رواں ماہ کے شروع میں بگرام ایئر بیس پر ہونے والے بم دھماکے کے بعد بات چیت میں ایک مرتبہ پھر تعطل پیدا ہو ا۔ تاہم امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے چند روز قبل ہی افغانستان میں قیام امن اور طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں افغانستان اور پاکستان کا دورہ کیا ہے۔