امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغان امن عمل اہم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔
خلیل زاد نے یہ بات افغانستان کے دو روزہ دورے کے اختتام پر ایک ٹوئٹ میں کہی ہے۔
اپنے اس دورے کے دوران امریکی ایلچی نے افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں جن میں ہونے والی گفتگو کو انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں تعمیری قرار دیا ہے۔
بدھ کو اپنے ایک اور ٹوئٹ میں خلیل زاد نے کہا کہ انہوں نے کابل میں تعینات امریکی سفیر جان باس اور ریزولوٹ سپورٹ مشن کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر کے ہمراہ افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامد کرزئی، خواتین سماجی کارکنوں اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے مشاورت کی۔
خلیل زاد نے کہا کہ کابل میں ہونے والی ملاقاتوں میں افغانستان میں جاری تشدد میں کمی لانے کی کوششوں اور بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے پر تبادلۂ خیال ہوا۔
امریکی نمائندۂ خصوصی نے ایک ایسے وقت کابل کا دورہ کیا ہے جب گزشتہ ہفتے افغانستان میں واقع بگرام کے امریکی ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کے بعد خلیل زاد نے قطر میں طالبان کے ساتھ جاری بات چیت میں وقفے کا اعلان کیا تھا۔
ادھر بدھ کو واشنگٹن میں امریکہ اور بھارت کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ کے دوران مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپو نے اس توقع کا اظہار کیا کہ تشدد میں کمی جنگ بندی اور بین الافغان مذاکرات کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکہ اس بات کی توقع کرتا ہے کہ افغان حکومت میں موجود اور دیگر سیاسی رہنما اور طالبان اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ افغانستان میں تشدد میں کمی سے جنگ بندی اور بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، تاکہ، ان کے بقول، امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو کم کر سکے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتا ہے کہ امریکہ کے لیے افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔
پریس کانفرنس میں بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر کا کہنا تھا کہ نئی دہلی افغانوں کی قیادت اور سرپرستی میں افغان امن عمل کی حمایت کرتا ہے۔
جے شنکر نے کہا کہ بھارت کو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہے کیوں کہ بھارت کی معاونت سے افغانستان میں کئی ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔
ان کے بقول، افغانستان میں امن و مصالحت کا عمل افغانوں کی قیادت اور سر پرستی میں ہونا چاہیے اور ہمیں یہ اعتماد ہے کہ بین الاقوامی برادری کے تعاون سے افغانستان میں ہونے والی ترقی کو محفوظ رکھا جا سکے گا۔
یادر ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال ستمبر میں معطل ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر بحال ہو گئے ہیں۔ البتہ، بگرام میں ہونے والے حالیہ حملے کے بعد ان مذکرات میں "وقفے" کا اعلان کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق، اس وقفے سے قبل فریقین کے درمیان افغانستان میں پر تشدد واقعات میں کمی لانے کی کوششیں، جنگ بندی اور بین الافغان مذاکرات بات چیت کا محور تھے۔
'عرب نیوز' نے طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ زلمے خلیل زاد طالبان پر 10 روز کے لیے جنگ بندی کرنے پر زور دے رہے ہیں، تاکہ افغان امن عمل میں پیش رفت ممکن ہو سکے۔
طالبان کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم، ان کا ماضی میں یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ طے پانے سے قبل جنگ بندی پر تیار نہیں۔