رسائی کے لنکس

داڑھی کیوں نہیں رکھی؟ طالبان نے 280 سیکیورٹی اہل کار برطرف کر دیے


14 اگست 2024 کو غزنی میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کی تیسری سالگرہ کے موقع پر طالبان فوجی اہلکار ایک فوجی پریڈ کے دوران۔
14 اگست 2024 کو غزنی میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کی تیسری سالگرہ کے موقع پر طالبان فوجی اہلکار ایک فوجی پریڈ کے دوران۔
  • طالبان کی وزارت اخلاقیات نے شرعی داڑھی نہ رکھنے پر 280 سیکیورٹی اہل کاروں کو برطرف کر دیا۔
  • وزارت اخلاقیات کے ڈائریکٹر نے مزید بتایا ہے گزشتہ سال غیر اخلاقی حرکات کرنے پر 1300 سے زیادہ افراد کو پکڑا گیا تھا۔
  • وزارت کا کہنا ہے کہ ملک میں 21 ہزار سے زیادہ ساز تباہ کر دیے گئے ہیں۔
  • اخلاقیات کی وزارت نے خواتین پر ٹوپی والا برقعہ پہننے پر زور دیا ہے۔

طالبان حکام نے منگل کے روز بتایا ہے کہ طالبان کی اخلاقی امور کی وزارت نے داڑھی نہ رکھنے پر سیکیورٹی فورس کے 280 سے زیادہ اہلکاروں کو برطرف کر دیا ہے۔

وزارت نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ سال افغانستان میں غیراخلاقی حرکات کے ارتکاب کے الزام میں 1300 سے زیادہ لوگوں کو پکڑا گیا تھا۔

اخلاقیات سے متعلق امور کے ڈائریکٹر مخلص نے ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی فورس کے 281 ارکان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے انہوں نے شرعی داڑھی نہیں رکھی تھی۔

اخلاقیات نافذ کرنےوالی وزارت نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ حراست میں لیے گئے تقریباً نصف افراد کو 24 گھنٹوں کے اندر چھوڑ دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے مبینہ جرائم یا صنف کے حوالے سے کسی ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔

منصوبہ بندی اور قانون سازی سے متعلق افغان وزارت کے ڈائریکٹر محب اللہ مخلص نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ حکام نے گزشتہ سال موسیقی کے 21،328 سازوں کو تباہ کیا اور ہزاروں کمپیوٹر آپریٹرز کو مارکیٹوں میں غیر اخلاقی اور قابل اعتراض فلمیں فروخت کرنے سے روکا۔

طالبان کے 3 سال: خواتین کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

طالبان کی اخلاقی امور کی وزات نے سن 2021 میں افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اس عمارت میں اپنا دفتر قائم کیا تھا جہاں خواتین امور کی وزارت قائم تھی۔ طالبان نے خواتین کی وزارت کو ختم اور خواتین کی تعلیم، روزگار، نقل و حرکت سمیت ان پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔

خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر پابندیوں کے خلاف اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظمیں مسلسل تنقید کرتی آ رہی ہیں۔ جب کہ طالبان ان کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے اقدامات اسلامی قانون کے مطابق ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان اسلامی قانون کی اپنی سوچ کے مطابق سخت نوعیت کی تشریح کرتے ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ وزارت اخلاقیات کے اہل کاروں نے کچھ خواتین کو اس الزام پر حراست میں لیا کہ انہوں نے ان کے مقرر کردہ اسلامی کوڈ کے مطابق لباس نہیں پہنا ہوا تھا۔ تاہم انہیں چند گھنٹوں کے بعد چھوڑ دیا گیا۔

طالبان کا کہنا ہے کہ ان پر خواتین کو حراست میں لینے کے الزامات بے بنیاد ہیں اور وہ ملک میں اسلامی قوانین اور افغان رسم و رواج کے مطابق ضابطے نافذ کر رہے ہیں۔

افغان وزارت اخلاق نے ان خواتین کے بارے میں اعداد و شمار جاری نہیں کیے جنہیں طالبان کے مقرر کردہ لباس نہ پہننے اور مرد سرپرست کے بغیر سفر کرنے کی بنا پر حراست میں لیا گیا تھا۔ تاہم وزارت کا کہنا ہے کہ وہ یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اسلامی لباس کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔

وزارت کا مزید کہنا تھا کہ سپریم لیڈر ہبت اللہ کی رہنمائی میں خواتین کے حجاب سے متعلق ایک مسودے کو منظور کیا گیا ہے جس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

اس سے قبل اخلاقیات کی وزارت نے خواتین سے کہا تھا کہ ٹوپی والا برقعہ پہنا کریں جس میں چہرے اور جسم کی نمائش نہیں ہوتی۔

طالبان کے اقتدار سے پہلے زیادہ تر افغان خواتین اپنا چہرہ نہیں ڈھانپتی تھیں اور نہ ہی برقعہ پہنتی تھیں۔

اخلاقیات امور کے ڈائریکٹر مخلص نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کی وزارت نے خواتین کی فروخت کے 200 سے زیادہ واقعات کو روکا ہے اور 2600 سے زیادہ عورتوں کو تشدد کا نشانہ بننے سے بچایا ہے۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG