رسائی کے لنکس

وزیرِ اعظم مودی ان حالات میں یوکرین کا دورہ کیوں کر رہے ہیں؟


  • فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد بھارت کی جانب سے یہ پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہو گا۔
  • سن 1991 میں یوکرین کی آزادی کے بعد
  • بھارت یوکرین روس تنازع کا حل نکالنے میں تعاون دینا چاہتا ہے: سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ
  • جولائی میں وزیرِ اعظم مودی کے دورۂ روس پر امریکہ نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
  • کسی بھی تنازع میں ثالثی کی نوبت تب آتی ہے جب فریقین مذاکرات کر رہے ہوں، یہاں یوکرین اور روس کے تو مذاکرات ہو ہی نہیں رہے: راجیو ڈوگرہ

وزیر اعظم نریندر مودی 21 سے 23 اگست کے درمیان پولینڈ اور یوکرین کا دورہ کریں گے۔ وہ 23 اگست کو پولینڈ سے بذریعہ ٹرین یوکرین کے دار الحکومت کیف جائیں گے۔

فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد بھارت کی جانب سے یہ پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہو گا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ماہ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے چیف آف اسٹاف اینڈری یرماک نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم مودی یوکرین میں قیام امن کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

وزارتِ خارجہ میں مغربی امور کے سیکریٹری تنمئے لال کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے یوکرین اور روس کے صدور کے ساتھ بات چیت کی ہے اور وہ تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے میں تعاون دینا چاہتے ہیں۔

انھوں نے پیر کو کہا کہ مودی کا یوکرین کا دورہ چوں کہ یوکرین سے سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد کسی بھارتی وزیرِ اعظم کا پہلا دورہ ہے اس لیے یہ ایک تاریخی دورہ ہے۔

ان کے بقول بھارت کے روس اور یوکرین دونوں سے آزادانہ تعلقات ہیں اور وہ ہمیشہ تنازعات کو مذاکرات اور سفارت کاری سے حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔

'غیر جانب دار افراد کی آوازوں کو اہمیت دی جاتی ہے'

سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ بھی اس دورے کو اہم مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کہیں بھی حالات بہت زیادہ بگڑ جائیں اور صورت حال مایوس کن ہو جائے تو غیر جانب دار افراد کے بولنے کی ضرورت پڑتی ہے اور ان آوازوں کو اہمیت بھی دی جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت یوکرین روس تنازع کا حل نکالنے میں تعاون دینا چاہتا ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی گزشتہ ماہ روس گئے تھے۔ اب وہ یوکرین جا رہے ہیں تاکہ یوکرین روس تنازع کو حل کرنے کے سلسلے میں بات چیت ہو سکے۔

نئی دہلی کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کے گزشتہ ماہ روس کے دورے سے یوکرین بھارت تعلقات کو جو نقصان پہنچا تھا، یہ دورہ اس کے ازالے کے لیے ہو رہا ہے۔

خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق مودی کے دورۂ روس کے بعد بھارتی سفارت کار اپنے یوکرینی ہم منصبوں کے رابطے میں رہے ہیں۔ خود وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے ہم منصب دمیتری کلابہ سے بات چیت کی اور باہمی رشتوں کو مزید آگے لے جانے کے امکانات پر تبادلۂ خیال کیا۔

یاد رہے کہ مودی نے آٹھ اور نو جولائی کو روس کا دورہ کیا تھا اور اتفاق سے انہی دنوں میں کیف میں بچوں کے ایک اسپتال پر مبینہ طور پر روس نے حملہ کیا تھا جس میں متعدد بچے ہلاک ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے یوکرین کے صدر اور مغربی ملکوں نے مودی کے دورۂ روس پر شدید تنقید کی تھی۔

بعد ازاں نریندر مودی نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے مذاکرات کے دوران کہا تھا کہ بے قصور بچوں کی ہلاکت تکلیف دہ ہے۔ انھوں نے نئی دہلی کے اس مؤقف کا اعادہ کیا تھا کہ فریقین کو مذاکرات اور سفارت کاری سے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ اس کا حل میدان جنگ میں ممکن نہیں۔

'بعض اوقات غلطیاں ہو جاتی ہیں'

راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی کا روس کا دورہ پہلے سے طے تھا۔ جہاں تک اسی دوران یوکرین میں بچوں کے اسپتال پر حملے کی بات ہے تو وہ حملہ مودی کے کہنے پر تو نہیں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اس وقت روس نے کہا تھا کہ یہ کارروائی ہم نے نہیں کی ہے۔ ان کے بقول بعض اوقات غلطیاں ہو جاتی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ مودی کے دورۂ روس کے موقع پر واشنگٹن میں روس مخالف نیٹو اتحاد کی سربراہ کانفرنس چل رہی تھی جس کے دوران یوکرین کی حمایت اور روس کی مذمت کی گئی تھی۔

اس وقت امریکہ نے روس سے بھارت کے تعلقات پر اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ روس سے بھارت کے تعلقات پر امریکہ کو تشویش ہے اور اس نے بھارت کے سامنے اپنی یہ تشویش رکھ دی ہے۔

'بھارت براہِ راست ثالثی کے بجائے پیغام رسانی کر سکتا ہے'

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست ثالثی نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ اس نے اشارہ دیا کہ وہ فریقین کی جانب سے پیغام رسانی کر سکتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں نئی دہلی کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران تنمئے لال نے کہا کہ بھارت اس پیچیدہ مسئلے کے پرامن حل کی تلاش میں ہر ممکن مدد دے گا۔ لیکن انھوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ مودی اور زیلنسکی کے مذاکرات کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔

راجیو ڈوگرہ کے خیال میں کسی بھی تنازع میں ثالثی کی نوبت تب آتی ہے جب فریقین مذاکرات کر رہے ہوں اور کوئی نتیجہ نہ نکل رہا ہو۔ یہاں تو فریقین کے درمیان مذاکرات ہی نہیں ہو رہے ہیں لہٰذا بھارت کی ثالثی کا کوئی سوال ہی نہیں اُٹھتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ سوئٹزرلینڈ کی میزبانی میں جون میں منعقدہ امن اجلاس میں روس کو مدعو نہیں کیا گیا اور زیلنسکی مذاکرات کے موڈ میں نہیں ہیں۔ زیلنسکی پر متعدد الزامات ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کی جگہ پر کوئی اور صدر ہوتا تو اب تک امن قائم ہو گیا ہوتا۔

ان کے مطابق نریندر مودی نے تاشقند اجلاس میں روسی صدر سے کہا تھا کہ یہ جنگ کا دور نہیں ہے۔ اسی طرح روس کے دورے کے موقع پر بھی انھوں نے پوٹن سے یوکرین کے اسپتال پر حملے پر اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا۔

وزارتِ خارجہ میں مغربی امور کے سیکریٹری تنمئے لال کے بقول ہم سمجھتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی کی اس رائے سے اور بھارت کے اس دیرینہ مؤقف سے کہ میدان جنگ میں مسائل کا حل نہیں ملے گا، بیش تر ملک متفق ہیں۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی کا یہ دورہ صرف یوکرین کی خود مختاری کی مضبوط حمایت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کی نشان دہی کرنا بھی ہے کہ بھارت ایک غیر جانب دار ملک کی حیثیت سے مذاکرات کا ماحول بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

امریکی انتخابات
نتائج کے یوکرین کی امداد
پر کیا اثرات ہوں گے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:10 0:00

تجزیہ کار ہما صدیقی ’فائنانشل ایکسپریس‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ یوکرین سے بھارت کا تاریخی رشتہ ہے جو معیشت، تعلیم اور ثقافتی تبادلے سمیت مختلف شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔

ان کے بقول یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ روس سے قریبی اور دوستانہ رشتوں کے باوجود بھارت متوازن مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے۔ قیام امن کی کوششوں میں تعاون دینے کے دوران مغرب اور روس سے اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے لیے متوازن رویہ بہت ضروری ہے۔

ان کے خیال میں یوکرین تنازع اور دیگر عالمی امور میں سرگرم رہنے کی وجہ سے عالمی معاملات میں ایک ذمہ دار ملک کا کردار ادا کرنے کے اس کے امیج میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG