رسائی کے لنکس

پاکستان سے کشیدہ تعلقات؛ طالبان کی فضل الرحمٰن کو دورۂ افغانستان کی دعوت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو افغانستان کے دورے کی دعوت دی ہے۔

یہ دعوت ایسے وقت میں دی گئی ہے جب غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کے انخلا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات کے باعث اسلام آباد اور کابل میں قائم طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

جے یو آئی (ف) کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ پر جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ہفتے کو اسلام آباد میں طالبان حکومت کے مقرر کردہ ناظم الامور احمد شکیب نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی اور انہیں دورۂ کابل کی دعوت دی۔

وائس آف امریکہ کی دری سروس کی رپورٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کو طالبان کی جانب سے دورۂ افغانستان کی دعوت پر پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران سفارتی حلقوں میں پاکستان اور طالبان کے تعلقات میں بہتری کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے ممکنہ اہم کردار پر آرا سامنے آ رہی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی میڈیا نے جے یو آئی (ف) کے ذرائع کے حوالے سے یہ بتایا ہے کہ پاکستان میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں کے بعد پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے سبب مولانا فضل الرحمٰن فریقین کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عہدے داروں کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے۔

افغانستان کی طالبان حکومت نے تاحال مولانا فضل الرحمٰن کو دورے کی دعوت کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد اسلام آباد بارہا افغان طالبان پر کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت اور اپنی سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔

طالبان حکومتِ پاکستان کے ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

گزشتہ جمعرات کو پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے بھی اپنے بیان میں طالبان حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے حملے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرے۔

پاکستان کی فوج کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کو سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں 23 اہلکار نشانہ بنے تھے۔

اس حملے کے بعدپاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے افغان ناظم الامور کو باضابطہ طلب کرکے احتجاج کیا تھا۔ بعض مبصرین کے مطابق اس سے صورتِ حال کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے۔

قبل ازیں پاکستان نے کئی مواقع پر افغان سرزمین کے دہشت گردی میں استعمال ہونے پر طالبان حکومت سے دفترِ خارجہ کے افسران کی سطح پر احتجاج کیا تھا۔

پاکستان کےدفترِ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کہ افغان ناظم الامور کو کہا گیا ہے کہ افغان عبوری حکومت کو فوری طور پر پاکستان کے مطالبات پہنچائے جائیں۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے افغان عبوری حکومت سے ڈیرہ اسماعیل خان کے حالیہ حملے کے مرتکب افراد کے خلاف مکمل تحقیقات اور سخت کارروائی، حملے کے مرتکب افراد اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کی قیادت کو پکڑ کر حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے حملے سے افغانستان کا کوئی تعلق نہیں۔

واضح رہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کو مختلف کارروائیوں میں 27 ’دہشت گرد‘ مارے گئے۔

اطلاعات کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے جڑے ایک غیر معروف گروپ’ تحریک جہاد پاکستان‘ نے قبول کی ہے۔

تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کب کابل جائیں گے اور آیا اسلام آباد اور طالبان حکومت کے درمیان تعلقات بحال کرانے میں ان کا کردار نتیجہ خیز ثابت ہوگا یا نہیں؟

موجودہ صورتِ حال میں افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی بحران کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔

جمعے کو سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ براہِ راست تصادم سے بچنے کے لیے اسلام آباد اور کابل کو کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دو طرفہ مذاکرات کے نتیجے میں ’ضمانت اور عملی میکنزم‘ فراہم کیے جائیں کہ ٹی ٹی پی اور داعش خراسان سمیت کوئی بھی فرد یا گروپ پاکستان اور افغانستان کی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کرنے پائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دوحہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے دہشت گردی کے اس دو طرفہ چیلنج کا احاطہ نہیں کرتا۔ خیال یہی ہے کہ دونوں ممالک اس سنجیدہ نوعیت کے باہمی مسئلے کے حل کے لیے گفت و شنید کریں گے۔

ان کے بقول مذاکرات کے آغاز کا یہی بہترین وقت ہے۔

ادھر ہفتے کو طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانع نے ’طلوع نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے چالیس افراد کو گرفتار اور قید کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔

عبدالمتین قانع کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد فعال نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG