رسائی کے لنکس

ڈیرہ اسماعیل خان حملہ؛ ذمہ داری قبول کرنے والی 'تحریکِ جہاد پاکستان' کتنی طاقت ور ہے؟


منگل کو خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں سیکیورٹی فورسز کے بیس کیمپ پر خودکش حملے کے بعد پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے افغان طالبان سے سخت احتجاج کیا ہے۔

حملے میں 23 سیکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے جب کہ فوج نے 27 دہشت گردوں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ حملے کی ذمے داری 'تحریکِ جہاد پاکستان' (ٹی جی پی) نامی غیر معروف تنظیم نے قبول کی تھی۔

اسی گروپ نے کچھ عرصہ قبل میانوالی میں پاکستانی فضائیہ کے ایک بیس کیمپ پر بھی حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

'تحریکِ جہاد پاکستان' کتنی طاقت ور ہے؟

تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) نے اس سال فروری میں بلوچستان کے ضلع چمن میں اپنے پہلے حملے کا دعویٰ کیا تھا۔

بعدازاں سوات میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی عمارت میں ہونے والے دھماکوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ یہ دہشت گردی کی کارروائی نہیں تھی۔ اس دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر سربکف مہمند سے جب اس گروپ کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ گروپ صرف انٹرنیٹ کی حد تک موجود ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک اور کمانڈر نے اس شبہے کا اظہار کیا کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ ٹی ٹی پی کے ہی سابق جنگجو ہوں۔

چار نومبر 2023 کو میانوالی ایئربیس پر حملے کی ذمے داری اس گروپ نے قبول کی تو اس گروپ کو سنجیدہ لیا جانے لگا۔

صحافی محقق ریکارڈو ولے ایک عرصے سے اس خطے میں جاری جنگ اور عسکریت پسندی کے حوالے سے عالمی جرائد کے لیے لکھتے رہے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ یہ بنیادی طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ہی نظریات اور جنگجوؤں پر مشتمل گروپ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ "بظاہر تحریک جہاد پاکستان حملوں کو انجام دینے اور دعوی کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کے لیے ایک پراکسی گروپ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ کیوں کہ اس طرح ٹی ٹی پی کی عوامی سطح پر ساکھ محفوظ رہتی ہے۔"

اُن کے بقول افغان طالبان کی جانب سے دباؤ کے حوالے سے بھی یہ حکمتِ عملی کامیاب نظر آتی ہے۔ یہ ایک ایسا حربہ ہے جو دراصل سب سے پہلے پاکستانی طالبان کے ایک اور گروپ حافظ گل بہادر نے شروع کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ چوں کہ تحریک جہاد پاکستان 2023 کے اوائل میں وجود میں آئی تھی اس لیے ٹی ٹی پی نے بعد میں آہستہ آہستہ خودکش حملے کرنا بند کر دیے اور انہیں ٹی جے پی کو آؤٹ سورس کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ نظریاتی طور پر ٹی ٹی پی اپنے یا اپنے محافظ افغان طالبان پر اثرات کے خوف کے بغیر پاکستان میں بڑے حملے کر سکتی ہے۔

تحریکِ جہاد پاکستان کی سربراہی کون کر رہا ہے؟

ٹی جے پی کے ترجمان ملا قاسم کے مطابق تحریکِ جہاد پاکستان کی سربراہی عبداللہ یاغستانی کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق عبداللہ یاغستانی نے کراچی کی جامعہ فاروقیہ سے دینی تعلیم حاصل کی۔ دیوبند مکتبِ فکر کی حامل جامعہ فاروقیہ کا شمار پاکستان کے بڑے دینی مدارس میں ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عبداللہ یاغستانی افغانستان میں امریکی اتحادی افواج کے خلاف لڑنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ البتہ تنظیم کے ترجمان ملا قاسم نے اپنی تنظیم کے بارے میں اہم انکشاف یہ کیا کہ انہوں نے افغان طالبان سمیت کسی سے بیعت نہیں لی ہے۔

تنظیم کے سربراہ عبداللہ یاغستانی کے نام کو اگر دیکھا جائے تو "یاغستان" کا لفظ تاریخ میں پاک افغان سرحد پر رہنے والے قبائل کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس لیے اس نسبت سے عبداللہ یاغستانی پاک افغان سرحد کے آرپار علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس تنظیم کے نظریات کیا ہیں؟

گروپ کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے تنظیم کے ترجمان قاسم نے کہا کہ وہ دیوبند مکتبِ فکر کے سخت پیروکار ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریک کو "تحریک ریشمی رومال" کا تسلسل بتایا۔ تحریک ریشمی رومال دراصل ہندوستان میں فرنگی راج کے خلاف دیوبند علما کی وہ تحریک تھی تو 1913 سے 1920 تک چلی۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ شیخ الہند محمود حسن دیو بندی کے تصور کردہ نظریہ پاکستان کو اس کی حقیقی روح میں نافذ کرنے کی دیگر تمام کوششیں گزشتہ 75 برسوں سے ناکام ہو چکی ہیں۔ اس لیے ان کی تنظیم نے ملک میں مسلح جدوجہد کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ملا قاسم کے مطابق تنظیم نے ہر اس تحریک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے جو پاکستان کے اندر نفاذِ شریعت کی کوشش کرے گا۔ اس لحاظ سے اس تنظیم کو القاعدہ یا داعش کے برعکس مقامی تنظیم کہا جا سکتا ہے جس کا مرکز پاکستان ہے۔

حملے کے لیے درابن کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟

درابن دراصل خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں قومی شاہراہ این 50 پر واقع ہے جو خیبرپختونخوا کو ڈیرہ اسماعیل خان کے راستے ژوب بلوچستان سے جوڑتی ہے۔

جولائی 2023 میں اس طرح ہی ژوب میں ایک سیکیورٹی بیس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ تحریکِ جہاد پاکستان نے ہی ڈیرہ اسماعیل خان سے کچھ دور جنوبی پنجاب کے شہر میانوالی میں ایئربیس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں عسکریت پسند تنظیمیں وقتاً فوقتاً سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔

تنظیم کے ترجمان ملا قاسم کے مطابق درابن خودکش حملہ آور کا نام مولوی حسن گنڈاپور تھا۔ گنڈاپور قبیلہ بنیادی طور پر ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں آباد ہے۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو آپس میں ملانے والا یہ خطہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکزی روٹ بھی ہے۔

پاکستانی فورسز پر حملوں میں ایک بار پھر اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:49 0:00

کیا درابن واقعہ پر پاکستان کے افغان طالبان سے احتجاج پر معاملات ٹھیک ہو جائیں گے؟

درابن واقعے کے بعد پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور طالبان حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ واقعہ کے پسِ پردہ عناصر کی سرکوبی کی جائے اور واقعے کی عوامی سطح پر مذمت کی جائے۔

لیکن ماہرین کے مطابق یہاں مسئلہ یہ ہے کہ تحریکِ جہاد پاکستان نے باضابطہ طور پر افغان طالبان کی بیعت نہیں کی ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان طالبان کس طرح ان پر دباؤ ڈال سکتے ہیں؟

صحافی ریکارڈو ولے کہتے ہیں کہ "گو کہ اس تنظیم نے باضابطہ افغان طالبان سے بیعت نہیں لی۔ لیکن تحریکِ جہاد پاکستان نے عملی طور پر افغان طالبان کی بیعت کی ہے کیوں کہ گروپ کے ترجمان نے کہا کہ ٹی جے پی ان مجاہدین سے بنی ہے جو گزشتہ 20 برسوں سے افغانستان میں بین الاقوامی اتحاد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

صحافی ریکارڈو ولے کا ماننا ہے کہ افغان طالبان کے پاکستان کو ٹی ٹی پی یا ٹی جے پی یا کسی دوسرے پاکستانی طالبان کے دھڑے کے حوالے کرنے کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے جو افغانستان میں ان کے شانہ بشانہ لڑ چکا ہے یا لڑتا ہے اور جس نے امارت اسلامیہ کے دوبارہ قیام میں ان کی مدد کی ہے۔

اس خطے میں عسکریت پسندی پر کام کرنے والے محققین کا ماننا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں دیکھا جائے تو اس تنظیم کی جانب سے اس طرح کے مزید حملوں کے خدشات موجود ہیں۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG