رسائی کے لنکس

امریکہ میں خواتین کو کسی بھی عمر میں قائدانہ منصب کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا، سروے  


ہارورڈ بزنس سکول میں چھپنے والے ایک سروے کے مطابق، ’عورتوں کے لیے قیادت کے لیے کوئی بھی عمر مناسب نہیں سمجھی جاتی۔‘ سٹاک فوٹو
ہارورڈ بزنس سکول میں چھپنے والے ایک سروے کے مطابق، ’عورتوں کے لیے قیادت کے لیے کوئی بھی عمر مناسب نہیں سمجھی جاتی۔‘ سٹاک فوٹو

امریکہ میں اس برس ہونے والے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ امریکہ میں عمر کے حوالےسے خواتین کے لیےموجود متعصبانہ خیالات اور رویوں کی وجہ سے انہیں کسی بھی عمر میں قائدانہ عہدوں کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا ۔

کبھی ان کی کم عمری اور کبھی ان کی درمیانی اور بڑی عمر کی وجہ سے انہیں اہم عہدوں پر تعینات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

ہارورڈ بزنس سکول کی اس ریسرچ میں یہ دیکھا گیا کہ عمر سے متعلق متعصبانہ خیالات یا اسٹیریو ٹائپس کیسے عورتوں کے خلاف تفریق کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ریسرچرز نے امریکہ کی چار بڑی انڈسٹریز، ہائیر ایجوکیشن، مذہبی نان پرافٹ، قانون اور صحت میں 913 ایسی خواتین پر تحقیق کی جو قائدانہ عہدوں پر کام کر رہی ہیں۔

صنفی مساوات پر تحقیق کرنے والی ایمی ڈیہل نے وائس آف امریکہ کو بذریعہ ای میل بتایا کہ ’’عورتوں کے لیے قیادت کے لیے کسی بھی عمر کو مناسب نہیں سمجھا جاتا۔‘‘ بقول ان کے ’’عورتیں یا تو بہت کم عمر سمجھی جاتی ہیں، یا بہت زیادہ عمر کی۔‘‘

ان جگہوں میں قیادت کی جگہوں پر کام کرنے والی چالیس برس سے کم عمر خواتین کو اکثر غلطی سے معاون سٹاف سمجھا جاتا ہے۔

کم عمر عورتوں کو اپنے تجربات ثابت کرنے میں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، ہارورڈ بزنس ریویو فوٹو بشکریہ ایلکسس پوٹاک
کم عمر عورتوں کو اپنے تجربات ثابت کرنے میں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، ہارورڈ بزنس ریویو فوٹو بشکریہ ایلکسس پوٹاک

ڈیہل کے مطابق بعض کو نامناسب پالتو جانوروں جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے، جیسے ’’مسی‘‘ یا ’’کڈو‘‘ یعنی بچے وغیرہ۔ انہوں نے مزید کہا ’’دوسرا ان کی ساکھ میں کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ غیر سفید فام عورتوں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ان پر یقین کیا جائے، انہیں ہر وقت اپنی ’ریزیومے‘ کو اختصار سے بتانا پڑتا ہے۔‘‘

چالیس سے ساٹھ برس کی خواتین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی بہت زیادہ گھریلو ذمہ داریاں ہوں گی جس کی وجہ سے وہ اداروں کی قیادت کے فرائض بہتر طور پر انجام نہیں دے سکیں گی ۔ ان عمروں میں خواتین کو درپیش مینوپاز عمرکو بھی انہیں ملازمت نہ دینے کی ایک وجہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

جب کہ ساٹھ سے زیادہ عمر کی خواتین کو، ان کی ریٹائرمنٹ کے بہت نزدیک ہونے کی وجہ سے پروموشن نہیں دی جاتی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی پروفیشنل ترقی پر سرمایہ کاری بے کار ہے۔

رپورٹ کی شریک مصنفہ اور امریکہ کی ایسبری تھیولوجیکل سیمینری میں لیڈرشپ کی پروفیسر لیانا ڈزوبنسکی نے بذریعہ ای میل وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صنفی طور پر عمر سے متعلق تعصب ابھی بھی ایسا معاشرتی رویہ ہے جسے عورتوں کے خلاف تفریق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

نیویارک کی کلارکسن یونی ورسٹی میں مینیجمنٹ کی پروفیسر اور اس رپورٹ کی شریک مصنفہ ایمبر سٹیفن سن کے مطابق جہاں چالیس سے پچاس کی عمر کے مردوں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس بہت تجربہ ہے اور وہ اپنے عروج پر ہیں، وہیں اسی عمر کی خواتین کے بارے میں رویے بہت مختلف ہیں۔

سٹیفن سن نے بھی بذریعہ ای میل بتایا کہ عورتوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ادارے کے لیے اتنی اہم نہیں ہیں، یا ان میں جدت کی کمی ہے، پروموشن بھی انہیں کم ملتی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ قائدانہ پوسٹ پر فائز ہونے کے لیے وہ مردوں کی نسبت کم قابل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان تمام باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے اداروں میں ملازمت کےدوران انہیں قائدانہ منصب پر فائز کرنے کے لیے کوئی بھی عمر مناسب نہیں سمجھی جاتی۔

ڈزوبنسکی کے مطابق عمر سے متعلق عورتوں کے خلاف تعصب کو ختم کرنے کے لیے اداروں کے پورے کلچر، اسٹرکچرز اور ان دقیانوسی خیالات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے ڈیہل کے ساتھ مل کر کتاب لکھی ہے، ’’شیشے کی دیواریں، ان چھ صنفی تعصبوں کو ختم کرنا جن کی وجہ سے آج بھی عورتیں کام کی جگہوں میں بہت پیچھے ہیں۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جب بھی کسی عورت سے متعلق ایسے خیالات کا اظہار کیا جائے، تو ان کی جگہ بڑے عہدوں پر فائز کسی مرد کو رکھ کر دیکھیں، کیا ایسے ہی بیانات اس مرد سے متعلق کہنے پر یہ مناسب لگیں گے۔

آرگینک سینیٹری پیڈز: 'لوگ مذاق اڑاتے تھے لیکن آج ہم کامیاب ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:43 0:00

ان کا کہنا ہے کہ اداروں میں خواتین اور مرد ملازموں کے درمیان امتیازی سلوک کو پتہ چلاے کے لیے صرف یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر کسی ادارے میں نوجوان مردوں کے لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں بہت پوٹینشل ہے لیکن اسی عمر کی خواتین کے لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ابھی بہت کم عمر ہیں، اور اگر زیادہ عمر کے مردوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس بہت تجربہ ہے، جب کہ زیادہ عمر کی عورتوں سے متعلق خیال ہو کہ وہ اپنا بہترین وقت گزار چکی ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اس ادارے میں عمر سے متعلق صنفی تعصب کار فرما ہے۔

ان ریسرچرز کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تجاویز کام کی جگہوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کو بتانا چاہتے ہیں تاکہ تمام ملازمین کے لیے بہترین کام کی جگہوں کی فضا فراہم کی جاسکے۔

ڈزوبنسکی نے کہا کہ دیگر صنفی تعصبات کی طرح عمر سے متعلق صنفی تعصب کے بھی حل موجود ہیں۔ بقول ان کے، ’’ہمیں معلوم ہے کہ مسئلہ کیا ہے، اور ہمیں اسے حل کرنے کے طریقوں کا بھی علم ہے۔"

وی او اے نیوز

فورم

XS
SM
MD
LG