شام میں گزشتہ روز ہونے والے ہلاکت خیز بم دھماکوں کے بعد جمعے کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے۔
یاد رہے کہ جمعرات کو دارالحکومت دمشق میں ہونے والے بم دھماکوں میں 55 افراد ہلاک اور چار سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے تھے۔ ملک میں گزشتہ 14 ماہ سے جاری حکومت مخالف تحریک کے دوران میں ہونے والے یہ سب سے ہلاکت خیز حملے تھے۔
ادھر شام کے سرکاری ٹی وی نے جمعے کو خبر دی ہے کہ سرکاری افواج نے شمالی شہر حلب میں ایک مشتبہ خود کش حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کردیاہے۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق مقتول کی گاڑی میں 1200 کلوگرام بارودی مواد لدا ہوا تھا۔
دریں اثنا، شامی حکومت نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکوں کے تناظر میں زور دیا ہے کہ وہ شام میں دہشت گردی کے واقعات کے تدارک پر غور کرے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق شامی حکومت نے یہ اپیل سلامتی کونسل کے ارکان اور اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون کے نام ایک خط میں کی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ شام کو دہشت گردوں کے ایسے گروہ نشانہ بنا رہے ہیں جنہیں بیرونی امداد حاصل ہے۔
ادھر شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے مبصر مشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ عالمی ادارے کے مزید کئی مبصرین شام پہنچ گئے جس کے بعد ملک میں تعینات امن رضاکاروں کی تعداد 50 ہوگئی ہے۔
قبل ازیں، امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا کے اس بیان کے بعد کہ امریکی انٹیلی جنس اداروں کو شام میں القاعدہ کی موجودگی کے ثبوت ملے ہیں، بین الاقوامی برادری کی شام کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شام میں گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے القاعدہ کی کاروائیوں کی طرز پر کیے گئے ہیں لیکن کئی مبصرین کی رائے میں ملک میں جاری پرتشدد واقعات کی کاروائیوں کا الزام القاعدہ پر عائد کرنا قبل از وقت ہوگا۔