شام کے حکومت مخالفین کا کہناہے کہ صدر بشارالاسد کی فورسز نے ملک سے اقوام متحدہ کے نگران مشن کے اختتام کے ایک روز بعد جمعے کو دارالحکومت دمشق کےکئی حصوں اور حلب شہر پربم برسائے ہیں۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق سے متعلق شام کی تنظیم نے دمشق میں فوجی ہوائے اڈے کے قریب باغیوں اور سرکاری فوجوں کے درمیان جھڑپوں کی خبر بھی دی ہے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم کےڈائریکٹر رامی عبدالرحمن نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ تشدد کے تازہ ترین واقعات جمعرات کو ملک بھر میں کم ازکم 180 افراد کی ہلاکت کے بعد پیش آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دمشق کے جنوب مغرب میں واقع قطنا کے قصبے سے مزید 65 افراد کی نعشیں ملی ہیں جن کی شناخت نہیں ہوسکی۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کہا تھا کہ وہ شام کے لیے اقوام متحدہ کے نگران مشن کو ختم کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ مشن کا اتوار کو ختم ہوگیاتھا ، لیکن کونسل نے کہا کہ اسے توقع ہے کہ وہ جنگ سے تباہ حال ملک میں اپنا ایک سیاسی دفتر قائم کرے گی۔
کونسل کا حالیہ صدر فرانس کے سفیر گیرارڈ اروڈ نے کہا ہے کہ ارکان کا اس پر اتفاق رائے تھا کہ موجودہ نگران مشن کے قیام کی توسیع کی شرائط پوری نہیں ہوسکی تھیں۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ شام میں صدر اسد کے خلاف 18 ماہ سے جاری شورش کے باعث وہاں کے 25 لاکھ باشندوں کو امداد کی ضرورت ہے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق سے متعلق شام کی تنظیم نے دمشق میں فوجی ہوائے اڈے کے قریب باغیوں اور سرکاری فوجوں کے درمیان جھڑپوں کی خبر بھی دی ہے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم کےڈائریکٹر رامی عبدالرحمن نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ تشدد کے تازہ ترین واقعات جمعرات کو ملک بھر میں کم ازکم 180 افراد کی ہلاکت کے بعد پیش آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دمشق کے جنوب مغرب میں واقع قطنا کے قصبے سے مزید 65 افراد کی نعشیں ملی ہیں جن کی شناخت نہیں ہوسکی۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کہا تھا کہ وہ شام کے لیے اقوام متحدہ کے نگران مشن کو ختم کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ مشن کا اتوار کو ختم ہوگیاتھا ، لیکن کونسل نے کہا کہ اسے توقع ہے کہ وہ جنگ سے تباہ حال ملک میں اپنا ایک سیاسی دفتر قائم کرے گی۔
کونسل کا حالیہ صدر فرانس کے سفیر گیرارڈ اروڈ نے کہا ہے کہ ارکان کا اس پر اتفاق رائے تھا کہ موجودہ نگران مشن کے قیام کی توسیع کی شرائط پوری نہیں ہوسکی تھیں۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ شام میں صدر اسد کے خلاف 18 ماہ سے جاری شورش کے باعث وہاں کے 25 لاکھ باشندوں کو امداد کی ضرورت ہے۔