ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے معتدل خیالات کے حامل صدر حسن روحانی اور وزیرِ خارجہ جواد ظریف کو سرِ عام تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بدھ کو ملاقات کے لیے آنے والے طلبہ کے ایک وفد سے خطاب میں خامنہ ای نے ایرانی صدر اور وزیرِ خارجہ کا نام لے کر ان پر تنقید کی اور کہا کہ انہوں نے (خامنہ ای نے) نے 2015ء کے جوہری معاہدے کی مخالفت کی تھی جو ان دونوں رہنماؤں نے عالمی طاقتوں کے ساتھ کیا تھا۔
ایران میں تمام ریاستی اور حکومتی امور میں حتمی فیصلے کا اختیار بطور رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای کے پاس ہے اور ان کی جانب سے ملک کے صدر اور وزیرِ خارجہ پر عوامی اجتماع میں تنقید کو غیر معمولی اقدام سمجھا جا رہا ہے۔
خامنہ ای اس سے قبل بھی 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں بشمول امریکہ کے درمیان طے پانےو الے جوہری معاہدے پر سرِ عام تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے صدر روحانی اور ان کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف کو نام لے کر ہدفِ تنقید بنایا ہے۔
انہوں نے یہ تنقید ایسے وقت کی ہے جب اس معاہدے سے امریکہ کو نکلے ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور امریکہ کی جانب سے ایران پر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں۔
سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کردی تھیں جس کے عوض امریکہ اور عالمی برادری نے ایران پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھالی تھیں۔
معاہدے پر ایرانی حکومت اور عالمی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے دوران بھی بارہا خامنہ ای نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ مغرب خصوصاً امریکہ پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن آخرِ کار انہوں نے معاہدے کی منظوری دے دی تھی۔
بدھ کو اپنے خطاب میں خامنہ ای کا کہنا تھا کہ معاہدے پر جس طرح عمل درآمد کیا گیا، انہیں اس پر تحفظات تھے جس کا اظہار انہوں نے بارہا صدر اور وزیرِ خارجہ سے کیا تھا۔
خامنہ ای نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بطور روحانی پیشوا انہیں اس مسئلے پر بات نہیں کرنی چاہیے لیکن وہ صورتِ حال کی سنگینی کے پیشِ نظر اس معاملے پر لب کشائی پہ مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ انقلابی قیادت کو انتظامی معاملات میں نہیں پڑنا چاہیےلیکن ان کے بقول اگر انتظامیہ کے معاملات سے پورے انقلاب کو خطرہ ہے تو پھر ایسا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
تاحال صدر روحانی اور وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے رہبرِ اعلیٰ کے اس بیان پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔
گزشتہ سال ٹرمپ حکومت کی جانب سے معاہدے سے دستبرداری کے بعد سے اس کا وجود مشکل میں پڑا ہوا ہے اور ایران نے معاہدے پر دستخط کرنے والی دیگر پانچ عالمی طاقتوں – چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی – سے کہا ہے کہ وہ معاہدہ بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔