سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کیس میں پیمرا، آئی ایس آئی اور الیکشن کمیشن کے جوابات مسترد کردیے ہیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ ملک کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں، یہ آئین کے تحت چلتا ہے۔ اگر حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو بتا دے۔ حکومت کہہ دے کہ دھرنا کیس دفن کردیں۔ دھاندلی کے نام پر دھرنا دینے والوں کو الزام ثابت نہ ہونے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے نومبر 2017ء میں اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں دھرنے کے معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت جمعے کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔
یاد رہے کہ الیکشن بل 2017ء میں حلف نامے کے الفاظ کو تبدیل کیے جانے پر تحریکِ لبیک کی جانب سے گزشتہ برس نومبر میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 22 روز تک دھرنا دیا گیا تھا۔
مظاہرین کے خلاف پولیس نے ایک آپریشن بھی کیا تھا جس کی ناکامی پر حکومت اور مظاہرین کے درمیان ایک معاہدے کے بعد دھرنا ختم ہوا تھا۔
مظاہرین کے مطالبے پر اُس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
جمعے کو جب سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل کی غیر موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو عدالت کو بتا دے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کدھر ہیں؟ ان کی مرضی ہے آئیں یا نہ آئیں؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل لاہور میں ہیں۔ انہیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت دی تھی کہ کچھ کیسز کے سلسلے میں وہاں آئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس نہیں، عدالت ہدایات دیتی ہے۔ ہم بھی تو عدالت ہیں اور یہ تاریخ بھی اٹارنی جنرل کی خواہش پر دی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان بند ہو گیا، اس سے اہم کیس کیا ہو سکتا ہے؟
ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ کیا یہ مذاق نہیں ہے؟ اٹارنی جنرل کو تنخواہ کون دیتا ہے؟ ٹیکس سے تنخواہ ملتی ہے تو وہ جواب دہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو عدالت کو بتا دے، اسے دفن کردیں۔ بتایا جائے پاکستان کو فعال ریاست بنانا ہے، اسے قانون کے ذریعے چلانا ہے یا اسٹریٹ پاور سے؟
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ آپ نے دھرنے کے دوران نیوز چینلز کو کوئی ایڈوائزری جاری کی تھی؟ ٹی وی چینل کے خلاف پیمرا نے کیا ایکشن لیا؟ کیا آپ پیمرا کی رپورٹ سے متفق ہیں؟ آپ کا رویہ سول ملازمین والا نہیں۔ آپ کو سچ نہیں بولنا، باقی سب بولنا ہے۔ یہ ملک کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں۔ یہ ملک آئین کے تحت چلتا ہے۔ پاکستان میں ہر شخص آئین کے تابع ہے۔ کیا بیوروکریٹس کبھی آئین نہیں پڑھتے؟
دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ ریڈ زون میں بھی ایک دھرنا ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کے جج آ اور جا بھی نہیں سکتے تھے۔ دھرنا دھاندلی کے نام پر دیا گیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا لپ دھاندلی کمیشن بنایا جائے۔ پھر کمیشن بن گیا۔ کمیشن کا فیصلہ سب کے سامنے ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں دھاندلی کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ الزام ثابت نہ ہونے پر کیا دھرنا دینے والوں نے قوم سے معافی مانگی؟ دھاندلی کے نام پر دھرنا دینے والوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس میں کہا کہ کیا آ ئی ایس آئی کسی قانون کے تحت چلتی ہے؟ آئی ایس آئی نے رپورٹ میں کہہ دیا کہ یہ ہمارا کام نہیں، وہ ہمارا کام نہیں۔ کیا آئی ایس آئی کسی کا بینک اکاونٹ بھی معلوم نہیں کرسکتی؟ انکم ٹیکس کا پوچھا تو آئی ایس آئی نے ایف بی آر کے کھاتے میں ڈال دیا۔ اگر آئی ایس آئی کا یہ کام نہیں تو پھر کہہ دیتے ہیں کہ گھر جائیں۔ لیکن پھر جب آئی ایس آئی دوسرے کاموں میں مداخلت کرے گی تو پھر ہم پوچھیں گے۔ اور پوچھیں گے کیا یہ آئی ایس آئی کا کام ہے؟
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ دھرنے سے اربوں کا نقصان ہوا۔ بتائیں ڈی جی آئی ایس آئی کو بلائیں یا سیکریٹری دفاع کو؟ جو لوگوں ہزاروں لوگوں کو لا سکتے ہیں کیا وہ ٹیکس دیتے ہیں؟ کیا دھرنا نیشنل سکیورٹی کا معاملہ نہیں؟ بطور قوم ہمیں پختگی دکھانی ہے۔ آئی ایس آئی ملکی قانون اور آئین کی پابند ہے۔
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ لبیک پاکستان کی رجسٹریشن سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔
عدالت نے خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کا پروفائل پڑھا اور ریمارکس دیے کہ "کہا گیا ہے کہ کرپٹ ہیں، یہ نہیں بتایا کہ کس قسم کے کرپٹ ہیں۔"
عدالت نے پیمرا، آئی ایس آئی اور الیکشن کمیشن کے جواب مسترد کرتے ہوئے تینوں اداروں کو دوبارہ تفصیلی جواب داخل کرانے کا حکم دے دیا۔ کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔