رسائی کے لنکس

کچھ لوگ سمجھتے ہیں وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں: جسٹس عیسیٰ


فائل
فائل

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ’’کچھ لوگ سمجھتے ہیں وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ ہم دشمن سے خوفزدہ نہیں ہیں، ملک کے اندر موجود لوگوں سے خوفزدہ ہیں۔ کیا ملک کو آزادی کے لئے حاصل کیا یا غلامی کے لئے؟‘‘

جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ میں فنڈز کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔ ان لوگوں نے چندہ اکٹھا کیا، 35 ہزار لوگوں نے دھرنا قائدین کو چندہ دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’’یہ کیوں فرض نہ کریں کہ ہمارے دشمنوں نے یہ پیسہ دیا۔ پاکستان میں ججز کو نشانہ بنانا جائز ہے؟ معزز چیف جسٹس کو گالیاں دی جاتی ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں۔ ہم نے آئین کی بات اٹھائی ہے۔ مجھے کرسی پر انصاف کے تقاضوں کے لئے بٹھایا ہے۔ میں انصاف نہیں کر سکتا کیوں کہ مجھے آپ کا تعاون حاصل نہیں ہے‘‘۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ’’تاریخ پڑھیں کہ پاکستان کس طرح بنایا گیا۔ ملک کو فوج نے نہیں بنایا۔ قائد اعظم کے اردگرد ایسی لیڈرشپ تھی جو پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کے ساتھ کوئی بریگیڈ نہیں تھی۔ میرے اجداد نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا۔ کیا پاکستان کو سیکیورٹی ریاست بنانا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگ سمجھتے ہیں وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ ہم دشمن سے خوفزدہ نہیں۔ ملک کے اندر موجود لوگوں سے خوفزدہ ہیں۔ کیا ملک کو آزادی کے لئے حاصل کیا یا غلامی کے لئے؟‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’سیکیورٹی ایجنسی اپنی بقا کا جواز دیں یہ میرا نہیں میرے ملک کا دکھ ہے۔ میں ایسا پاکستان نہیں چاہتا۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کیا خوف میں رہنے کے لئے بنایا گیا؟ کیا کچھ لوگ قانون سے بالاتر ہیں؟ آئی ایس آئی کو کون تنخواہ ادا کر رہا ہے؟ سرکاری ملازم ملک کے حکمران نہیں خادم ہیں۔ کوئی خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے۔ یہ ملک اشاروں پر نہیں چلے گا‘‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ انصاف کی ضرورت طاقتور کو نہیں بلکہ مظلوم کو ہوتی ہے۔ ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ظالم کے ساتھ نہیں لیکن جو گاڑیاں جلائیں، تشدد کریں، راستے بند کریں ان پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ ایسے لوگ ہمارے چہیتے ہیں۔ کیا زندگی اور آزادانہ نقل و حرکت آئینی حق نہیں ہے؟ دھرنے والوں نے ملک کا کروڑوں کا نقصان کیا۔ غلیظ زبان استعمال کی۔ یہ اسلام کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ لوگ اسلام سے نفرت کریں۔

جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ’’کیا دھرنے کے لیڈر کے فنڈز کا آڈٹ کر لیا گیا؟۔ کیا فنڈز کو ثابت کرنے کی دستاویز ہے۔ وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا کہ آئی ایس آئی ایک انٹیلی جنس ادارہ ہے اور دھرنے کے لیڈر خطیب ہیں‘‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایجنسیوں کو نہیں معلوم دھرنے کے لیڈر ٹیکس دیتے ہیں یا نہیں؟ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں۔ کیا یہ سرکاری خطیب ہیں؟ اس خطیب کو تنخواہ کون ادا کرتا ہے؟ کیا غیبی قوتیں معاوضہ ادا کرتی ہیں؟ کیا دھرنے والے لیڈران کے بینک اکاؤنٹس ہیں؟ 18 فروری کے حکم نامے میں ہم نے رپورٹ طلب کی۔ جس کے بعد سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ کو غیر اطمینان بخش قرار دیا تھا۔ کیا دوبارہ رپورٹ نہیں آنا چاہیے تھی؟ آپ کس طرح ملک چلا رہے ہیں۔

جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر مکمل معلومات کے ساتھ پیش ہوں۔

سماعت کے دوران الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کے لیے قائم ادارے پیمرا کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا گیا اور جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پیمرا غیر فعال ہے تو اتھارٹی کو کون چلا رہا ہے۔ دھرنا کے معاملہ پر پیمرا نے محض ٹی وی چینلز کو ایڈوائزری ایشو کی۔ پیمرا کے ٹی وی چینلز کے خلاف اقدامات مایوس کن ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنے میں ٹی وی چینلز نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ پیمرا کے ٹی وی چینلز کے خلاف اقدامات محض دکھاوا ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ عدالت فروری میں 4 ہفتوں میں چیئرمین پیمرا کی تقرری کا حکم دے چکی ہے۔ حکومت چیئرمین پیمرا سے متعلق عدالتی حکم پر عمل کرے۔ عدم تعمیل پر ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ کیس کی سماعت کے دوران نجی چینل جیو نیوز کے حوالے سے بھی بات کی گئی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کن علاقوں میں جیو کی نشریات بند ہے؟ اس معاملہ پر آئی ایس آئی سے سروے کروا لیتے ہیں۔ کیا کینٹ ایریا پاکستان کا حصہ نہیں؟

انہوں نے کہا کہ کچھ چینل غائب ہو جاتے ہیں۔، کیا چیز نشر ہوگی کیا نشر نہیں ہوگی؟ یہ کیا بات ہے۔ اگر کوئی ریاست مخالف نشریات کرے تو آئی ایس آئی کو پتہ نہیں ہوگا؟

عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور سیکیورٹی حکام عدالت میں پیش ہوں، کیس کی سماعت 10 روز کیلئے ملتوی کردی گئی۔

XS
SM
MD
LG