اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کو داخلِ دفتر کردیا ہے۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے پیر کو فیض آباد دھرنے کے دوران تحریکِ لبیک کے قائد خادم حسین رضوی اور دیگر قائدین کے خلاف درج کیے جانے والے مقدمات کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالت میں اسلام آباد پولیس نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مقدمات کی نئے سرے سے تحقیقات کی جارہی ہیں جن کے مکمل ہونے کے بعد دوبارہ چالان جمع کرایا جائے گا۔
استغاثہ نے عدالت سے استدعا کی کہ نیا چالان جمع کرائے جانے تک کیس کی سماعت نہ کی جائے۔
عدالت نے استغاثہ کی استدعا پر مقدمات پر مزید کارروائی روکتے ہوئے خادم حسین رضوی اور تحریکِ لبیک کے دیگر قائدین کے خلاف تین مقدمات کو داخلِ دفتر کرتے ہوئے معاملے کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
تحریکِ لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آباد معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے پر دو اپریل کو ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا تھا جس کے باعث کئی اہم شاہراؤں پر ٹریفک معطل ہوگئی تھی۔
اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختمِ نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف نومبر 2017ء کو دھرنا دیا تھا۔ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے جس کے بعد 27 نومبر 2017ء کو فوج کی ثالثی میں حکومت اور مظاہرین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا۔
معاہدے میں حکومت نے وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
بعد ازاں پنجاب رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اظہر نوید کی بعض ایسی فوٹیجز سامنے آئی تھیں جس میں وہ گرفتار مظاہرین میں رہائی کے بعد ایک، ایک ہزار روپے تقسیم کر رہے تھے۔