اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیض آباد پر جاری دھرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی ںے کہا ہے کہ فوج اپنے آئینی کردار میں رہے۔
سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں جسٹس صدیقی نے فوج اور حکومت پر سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آرمی چیف کی حیثیت چیف ایگزیگٹو کی ہے؟ یہ ثالث بننے والا جنرل کون ہے؟ ردالفساد اور بڑے بڑے آپریشن کہاں گئے؟ یہاں فساد کسی کو نظر نہیں آتا؟ کیا حمزہ کیمپ کی جگہ جی ایچ کیو ہوتا تو پھر بھی دھرنا ہوتا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کی صبح فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران وزیر داخلہ احسن اقبال، چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر اور دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنے کے قائدین کے ساتھ حکومت کے معاہدے اور اس میں فوج کی مبینہ ثالثی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئینِ پاکستان کے تحت کسی آرمی افسر کا ثالث بننا کیسا ہے؟ کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آئین سے باہر ہیں؟ فوجی افسر ثالث کیسے بن سکتے ہیں؟ یہ تو لگ رہا ہے کہ دھرنا ان کے کہنے پر ہوا۔ ریاست کے ساتھ کب تک ایسے چلتا رہے گا؟
کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آئین سے باہر ہیں؟ فوجی افسر ثالث کیسے بن سکتے ہیں؟ یہ تو لگ رہا ہے کہ دھرنا ان کے کہنے پر ہوا۔عدالت کے ریمارکس
خیال رہے کہ حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان اتوار اور پیر کی درمیانی شب طے پانے والی معاہدے کی دستاویز پر فوج کے ایک حاضر سروس میجر جنرل کے دستخط ہیں جب کہ معاہدے میں یہ بھی تحریر ہے کہ یہ معاہدہ "آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ان کی نمائندہ ٹیم کی کاوشوں سے طے پایا۔"
سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ رپورٹ پیش کی جائے کہ دھرنے کے خلاف پولیس کا آپریشن ناکام کیوں ہوا؟ ہماری انتظامیہ کو کیوں ذلیل کیا گیا؟ پاک فوج اپنے آئینی کردار میں رہے۔ آرمی چیف کون ہوتے ہیں ثالث بننے والے؟
جج نے کہا کہ جن فوجیوں کو سیاست کرنے کا شوق ہے وہ فوج کو چھوڑیں اور سیاست میں جائیں۔ قوم کے ساتھ کب تک تماشا لگا رہے گا؟
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوال کیا کہ کیا فوج اقوامِ متحدہ ہے جو معاہدہ کرا کے ثالث بن جائے؟ آئین پاکستان کے تحت فوج کیسے غیرجانبدار رہ سکتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ملک کو سکیورٹی کی مشکل صورتِ حال میں دھکیلا جارہا ہے۔ فوج اور پولیس پر حملے ہورہے ہیں۔ ایٹمی قوت کے ساتھ عالمی سطح پر سازشیں ہورہی ہیں۔ ایٹمی طاقت والے ملک کے دروازے پر مظاہرین بٹھا دیے گئے۔
معلوم ہے قادیانیوں کو کس نے ڈارلنگ بنا کر رکھا ہےجسٹس شوکت عزیز صدیقی
انہوں نے حکام کو ہدایت کی کہ تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کریں کس نے ہماری انتظامیہ کو رسوا کیا؟ کس نے پولیس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا؟ آرمی اپنی آئینی حدود میں رہے۔ فوج قانون توڑنے والے جلوس کے سامنے کیسے نیوٹرل رہ سکتی ہے؟
جسٹس صدیقی نے سوال کیا کہ کیا فیض آباد کے ساتھ جی ایچ کیو ہوتا تو بھی دھرنا دیا جاتا؟ اس پر وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے جواب دیا کہ یہ تو دھرنا دینے والے ہی بتا سکتے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکارنہیں رہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو گالیاں دینے والوں کے معافی مانگنے کی شق معاہدے میں کیوں شامل نہیں؟ دہشت گردی کی شقوں والے مقدمات یکدم کیسے ختم ہوں گے؟
جسٹس صدیقی نے عدالت میں موجود وزیرِ داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان کو بچانے کے لیے زاہد حامد کی بلی چڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے ناموسِ رسالت کیس میں انوشہ رحمان کے ڈرٹی گیم کا اشارہ دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان باتوں کے بعد میری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔ مجھے ماردیا جائے گا یا لاپتا کردیا جائے گا۔ معلوم ہے قادیانیوں کو کس نے ڈارلنگ بنا کر رکھا ہے۔
آپ اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ ایک بھی ملزم پکڑنا ہو گا تو فوج کرے گیدورانِ سماعت جسٹس شوکت صدیقی کے ریمارکس
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں نے فیض آباد کلیئر کرانے کا حکم آئین کے مطابق دیا۔ ہمیں معاملے کی حساسیت کا علم ہے۔ آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) رپورٹ دے کہ دھرنے والوں کے پاس آنسو گیس گن، شیل اور ماسک کہاں سے آئے؟ معاہدے پر دستخط کرنے والا میجر جنرل فیض حمید کون ہے؟ یہ تاثردیا جا رہا ہے کہ ہر مرض کی دوا فوج ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزیرِ داخلہ سے کہا کہ آپ نے اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کو بے رحمی کے ساتھ ذلیل کرا دیا۔
اس پر احسن اقبال نے کہا کہ پولیس کو ہم نے تو نہیں ذلیل کرایا۔ میرے قتل پر بھی دس لاکھ روپے انعام رکھا گیا ہے۔
جسٹس صدیقی نے کہا کہ آپ اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ ایک بھی ملزم پکڑنا ہو گا تو فوج کرے گی۔ آپ نے ثابت کر دیا کہ دھرنا کے پیچھے وہی تھے۔ ریاست اور آئین کے ساتھ کھیلنے کی حد ہو گئی۔ آئی ایس آئی کے نمائندے نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ ایجنسیاں دھرنے کے پیچھے نہیں ہیں۔
قبل ازیں عدالت کے حکم پر چیف کمشنر نے معاہدے کا متن پڑھ کر سنایا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے معاہدے کا نہیں بلکہ صرف دھرنا ختم کرانے اور فیض آباد انٹرچینج خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔
ان باتوں کے بعد میری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔ مجھے ماردیا جائے گا یا لاپتا کردیا جائے گا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی
سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا نے عدالت کو بتایا کہ ختمِ نبوت میں ترمیم سے متعلق راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ تیار نہیں ہوئی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ اس رپورٹ پر ظفر الحق اور مشاہد اللہ نے دستخط کر دیے ہیں لیکن احسن اقبال کے دستخط رہتے ہیں۔
جسٹس صدیقی نے کہا کہ تحریری معاہدہ عدالت میں آج ہی جمع کرائیں۔ عدالت نے دھرنا ختم کرانے کے اقدامات کی تفصیل بھی طلب کرلی۔
چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر نے کہا کہ کچھ دیر کے بعد دھرنا ختم اور فیض آباد کا علاقہ کلیئر ہو جائے گا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی بی سے دھرنے کے خلاف پولیس آپریشن کی ناکامی اور سوشل میڈیا پر وائرل آڈیو سے متعلق بھی رپورٹ طلب کی۔
اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وزیرِ داخلہ احسن اقبال عدالت میں پیش نہ ہوئے۔
معاہدے پر دستخط کرنے والا میجر جنرل فیض حمید کون ہے؟ یہ تاثردیا جا رہا ہے کہ ہر مرض کی دوا فوج ہے۔دورانِ سماعت عدالت کے ریمارکس
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ وزیر داخلہ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیرِ داخلہ دھرنا قیادت سے مذاکرات کے لیے پوری رات جاگتے رہے، اس لیے پیش نہیں ہوئے۔
عدالت نے پوچھا کہ وزیرِ داخلہ رات بھر جاگ کر کیا کرتے رہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دھرنے والوں کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے۔
جسٹس صدیقی نے پوچھا کہ دھرنے والوں سے کیا معاہدہ ہوا؟ تفصیلات بتائیں۔ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے خود میڈیا سے معلوم ہوا ہے اور معاہدے کی تفصیلات وزیر داخلہ ہی بتائیں گے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو 15 منٹ میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ عدالت کا حکم ملتے ہی وزیرِ داخلہ احسن اقبال عدالت میں پیش ہوگئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیرِ داخلہ کو گزشتہ سماعت پر عدالت کے احکامات پر دھرنا ختم نہ کرانے پر توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔