رسائی کے لنکس

سوڈان:ریفرنڈم کے بعد تیل کی تقسیم کے نئے معاہدے کی ضرورت


تیل کی آمدن کا پرانا معاہدہ ریفرنڈم کے بعد ختم ہوجائے گا
تیل کی آمدن کا پرانا معاہدہ ریفرنڈم کے بعد ختم ہوجائے گا

ماحولیاتی حقوق کے گروپ گلوبل وٹنس کا کہنا ہے کہ سوڈان میں تیل سے ہونے والی آمدنی کے بارےمیں زیادہ شفاف اور واضح معلومات ضروری ہیں۔ اب جب کہ سوڈان میں جنوب کی آزادی کے بارے میں ریفرینڈم شروع ہو چکا ہے، ملک میں وسائل کی تقسیم کا معاملہ بہت اہم ہو گیا ہے ۔

سوڈان میں 2005 کے امن سمجھوتے کے مطابق تیل کی آمدنی شمال اور جنو ب کے درمیان تقسیم ہونی ہے لیکن آمدنی کی تقسیم کا سمجھوتہ اس مہینے کے ریفرینڈم کے بعد ختم ہو جائے گا۔

جنوبی سوڈان کے لوگوں نے اتوار کے روز سے ووٹ ڈالنے شروع کردیے ۔ یہ عمل مکمل ہونے کے بعد یہ طے ہو گا کہ جنوب شمالی سوڈان سے الگ ہوکر الگ ملک بن جائے گا یا سوڈان کے ساتھ متحد رہے گا۔ ووٹنگ کا عمل ایک ہفتے تک جاری رہے گا لیکن ابتدائی اندازوں کے مطابق لوگوں کی بھاری اکثریت آزادی کے حق میں ووٹ دے گی۔

گلوبل وٹنس نامی تنظیم کی روزی شارپ کہتی ہیں کہ جب کوئی نیا سمجھوتہ ہو تو اسے پرانے سمجھوتے کے مقابلے میں زیادہ شفاف ہونا چاہیئے۔’’کوئی بھی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج کل سوڈان میں کتنا تیل پیدا ہوتا ہے ۔اگر شمال اور جنوب کے درمیان کوئی ایسی سمجھوتہ ہونا ہے جو وقت کے ساتھ قائم رہے، تو اس معاملے کو واضح کرنا ضروری ہے ورنہ ملک کے لیئے تباہ کن نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔‘‘

گلوبل وٹنس کا کہنا ہے کہ تیل کے جو اعداد و شمار سوڈانی حکومت نے شائع کیے ہیں وہ ان سے مختلف ہیں جو ملک میں سب سے زیادہ تیل نکالنے والے ادارے، دی چائینا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن نے شائع کیے ہیں۔ چینی کارپوریشن کے تیل کی پیداوار کے اعداد و شمار حکومت کے اعدادوشمار کے مقابلے میں نو سے 25 فیصد تک زیادہ ہیں۔

حکومتِ سوڈان نے گلوبل وٹنس کو بتایا کہ یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ چائینا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن تیل میں سے پانی الگ کرنے سے پہلے کے اعداد و شمار شائع کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تیل راستے میں ضائع ہو جاتا ہے ۔

سوڈان:ریفرنڈم کے بعد تیل کی تقسیم کے نئے معاہدے کی ضرورت
سوڈان:ریفرنڈم کے بعد تیل کی تقسیم کے نئے معاہدے کی ضرورت

سوڈان کا تین چوتھائی تیل ملک کے جنوبی حصے میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن جیسا کہ شارپ نے بتایا، کہ اگر جنوب علیحدہ ہو گیا تو بھی تیل کی دولت کی تقسیم کا معاملہ آسانی سے حل نہیں ہو گا۔’’اگر جنوبی سوڈان آزاد ہو گیا، جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے، تو جنوبی سوڈان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہو گا، اور کم از کم اگلے چند برسوں تک، اس کا تیل بر آمد کرنے کی صرف یہی صورت ہوگی کہ شمالی سوڈان سے گذر کر بحر احمر تک کے ساحل تک، پائپ لائن کے ذریعے تیل بر آمد کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنا تیل بر آمد کرنے کے لیئے شمالی اور جنوبی سوڈان دونوں کو تعاون کرنا ہوگا۔‘‘

مشرقی افریقہ کے ریسرچر ، برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے جسٹن ویلس کہتے ہیں کہ ملک میں امن اور استحکام لانے کے لیئے یہ انتہائی ضروری ہوگا کہ سوڈان کے تیل کے شعبے کے معاملات زیادہ شفاف ہوں ۔’’یہ ایسا شعبہ ہے جس پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔ تیل کے ہر کنوئیں کی پیداوار کے بارے میں پیچیدہ سودے ہیں۔ یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ فی بیرل کتنا پیسہ ادا کیا جا رہا ہے، اور یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے ۔ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہو نی چاہیئے کہ Juba میں بہت زیادہ شک و شبہ پایا جاتا ہے کہ انہیں اتنا پیسہ نہیں مل رہا ہے جتنا ملنا چاہیئے۔ مستقبل کے لیئے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ اگر معاملات بالکل واضح اور شفاف نہیں ہوں گے ، تو پھر اس معاملے میں اعتماد قائم نہیں ہو سکتا۔‘‘

گلوبل ڈیلز کا کہنا ہے کہ مستقبل میں زیادہ شفاف سودے ہونے چاہئیں ۔ تیل کی پیداوار کے اعداد و شمار باقاعدگی سے شائع کیئے جانے چاہئیں، غیر جانبدار نگرانی کا عملہ ہونا چاہیئے، آڈٹ ہونا چاہیئے اور تنازعات کو طے کرنے کا کوئی نظام قائم کیا جانا چاہیئے ۔

XS
SM
MD
LG