رسائی کے لنکس

خواتین مردوں کے مقابلے میں گوشت کم کیوں کھاتی ہیں؟


  • ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مرد خواتین کے مقابلے میں زیادہ گوشت کھاتے ہیں۔
  • گوشت کی جانب عورتوں کے کم رجحان کا تعلق انسانی معاشرے کی ارتقا سے جڑا ہے جس میں عورتوں کو گوشت کھانے سے روکا جاتا تھا۔
  • دنیا میں سب سے کم گوشت کھانے میں براعظم افریقہ کے بعد بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔
  • دنیا میں گوشت کی سب سے زیادہ فی کس اوسط کھپت امریکہ میں ہے۔
  • مجموعی طور پر سال بھر میں سب سے زیادہ گوشت چین میں کھایا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں مسلمان عید الاضحیٰ منا رہے ہیں اور جانوروں کی قربانی کر رہے ہیں۔ تاہم یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ دنیا بھر میں گوشت کھانے کا رجحان عورتوں کی نسبت مردوں میں زیادہ ہے۔

سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گوشت کھانے کی ترجیحات کا تعلق جنس سے جڑا ہے اور یہ رجحان دنیا کے ہر معاشرے دیکھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں یہ تفریق زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔

اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں گوشت کی سالانہ فی کس کھپت 24 کلو گرام ہے جب کہ یو ایس ڈپارٹمنٹ آف ایگریکلچر کے مطابق امریکہ میں گوشت کا سالانہ فی کس استعمال 102 کلو گرام ہے۔

بھارت کا شمار دنیا بھر میں سب سے کم گوشت استعمال کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں گوشت کی سالانہ فی کس کھپت ساڑھے تین کلوگرام ہے جس کی زیادہ تر وجہ وہاں کے مذہبی عقائد اور معاشرتی روایات ہیں۔

دنیا بھر میں گوشت کا سب سے کم استعمال افریقی ملک برونڈی میں ہے جس کی بنیادی وجہ غربت اور قوت خرید کا کم ہونا ہے۔

لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کا مستقبل کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:18 0:00

آپ کے لیے یہ بات بھی دلچسپ ہو گی کہ دنیا بھر میں ہرسال مجموعی طور پر سب سے زیادہ گوشت چین میں کھایا جاتا ہے جس کا سبب اس کی ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی ہے۔

سن 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں 10 کروڑ ٹن سے زیادہ گوشت کھایا گیا تھا جو دنیا کی کل کھپت کا 27 فی صد تھا۔

بات ہو رہی تھی کہ عورتوں کے مقابلے میں مرد زیادہ گوشت کیوں کھاتے ہیں؟ تو محققین کا کہنا ہے کہ اگر عورتوں اور مردوں کو معاشرتی اور مالی لحاظ سے اپنی خوراک منتخب کرنے کی آزادی ہو تو عورتوں کے انتخاب میں گوشت کی مقدار کم ہو گی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ عورتوں کی گوشت سے رغبت کم ہونے کی وجوہات انسانی معاشرت کے ارتقا کے طویل سفر سے جڑی ہیں جو نسل درنسل ان میں منتقل ہوتا رہا ہے اور ان کے جین میں رچ بس چکا ہے۔

برطانیہ کے شہر الٹرینیم کے ایک گراسری اسٹور میں گوشت کے شیلف
برطانیہ کے شہر الٹرینیم کے ایک گراسری اسٹور میں گوشت کے شیلف

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ معاشرتی ارتقا کے ابتدائی ادوار میں عورتوں کو گوشت کھانے سے روکا جاتا تھا کیوں کہ ان کے خیال میں گوشت کا استعمال نسوانی ہارمونز پر منفی اثر ڈال سکتا ہے جس سے حمل اور بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

دوسری جانب مرد بڑی رغبت سے گوشت کھاتے تھے کیوں کہ وہ شکاری معاشرے کا حصہ تھے اور شکار صرف ان کی خوراک کی ضروریات ہی پوری نہیں کرتا تھا بلکہ کئی معاشرتی رسمیں اور اعزاز و افتخار بھی شکار سے ہی جڑے تھے۔

سائنس دان کہتے ہیں کہ گوشت کی جانب عورتوں کے رجحان میں کمی زمین کو گلوبل وارمنگ سے بچانے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف الی نوائے میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کرہ ارض کے درجۂ حرارت کو بڑھانے کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے 20 فی صد حصے کے اخراج کی ذمہ داری ان جانوروں پر عائد ہوتی ہے جو زراعت کے شعبے میں انسان کی مدد کرتے ہیں اور ہمیں دودھ اور گوشت بھی فراہم کرتے ہیں۔

کیلی فورنیا کی ایک کمپنی کی جانب سے لیبارٹری میں تیار کیے گئے گوشت کا ایک برگر۔ امریکہ کے گراسری اسٹوروں میں لبیارٹری کے تیارکردہ اور پودوں سے حاصل کردہ گوشت کی مصنوعات دستیاب ہیں۔
کیلی فورنیا کی ایک کمپنی کی جانب سے لیبارٹری میں تیار کیے گئے گوشت کا ایک برگر۔ امریکہ کے گراسری اسٹوروں میں لبیارٹری کے تیارکردہ اور پودوں سے حاصل کردہ گوشت کی مصنوعات دستیاب ہیں۔

زراعت میں جانوروں کا استعمال بتدریج کم ہو رہا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ان کی جگہ مشینوں نے لی ہے اور جانوروں کا اب زیادہ تر مصرف خوراک کا حصول ہی رہ گیا ہے۔

سائنس دان کہتے ہیں کہ گوشت کی کھپت گھٹانے سے گلوبل وارمنگ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی آف زیورخ کے سائیکالوجی کے پروفیسر کرسٹو فرہاپ وڈ جو اس تحقیق میں شامل ہیں، کہتے ہیں کہ مردوں میں گوشت کی کھپت کم کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جائے گا، اس کا کرہ ارض پر اوسطاً اثر خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہو گا، کیونکہ خواتین پہلے ہی کم گوشت کھا رہی ہیں۔

اس تحقیق کے لیے ماہرین کے دنیا کے چار براعظموں میں 28 ہزار سے زیادہ لوگوں سے پوچھا کہ وہ روزانہ کتنی مختلف قسم کی خوراک کھاتے ہیں اور اس میں گوشت کا تناسب کتنا ہے۔

حاصل ہونے والے جوابات سے انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ عورتوں اور مردوں میں گوشت کی اوسط کھپت کیا ہے۔

کسی مستند نتیجے پر پہنچنے کے لیے انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈیکس کی بھی مدد لی جس کا تعلق صحت، تعلیم اور معیار زندگی سے ہے۔ پیمائش کا یہ پیمانہ جنسی بنیاد پر فرق کو سامنے لاتا ہے اور ترقی کے حوالے سے ملکوں کی درجہ بندی کرتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چین، بھارت اور انڈونیشیا تین ایسے ملک ہیں جہاں گوشت کے استعمال میں عورتوں اور مردوں کے درمیان سب سے زیادہ فرق ہے، جب کہ یہ تینوں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں جنسی مساوات اور ترقی کی شرح بہتر ہوئی ہے۔

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ایڈلیڈ کی سائیکالوجی کی پروفیسر گیرولین سملر، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں، کہتی ہیں کہ مردوں کا عورتوں کے مقابلے میں زیادہ گوشت کھانے کا تعلق ان کی جنسی شناخت سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو مرد ہی زیادہ تر باربی کیو کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اخلاقی بنیاد پر گوشت کے استعمال میں کمی کا مشورہ ایک حساس معاملہ ہو سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گوشت کے استعمال میں کمی کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کو روکنے میں کسی قدر مدد دے سکتی ہے۔

اس تحریر کے لیے کچھ معلومات خبر رساں ادارے اے پی سے لی گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG