رسائی کے لنکس

افغان سرحد پر آباد پاکستانی، عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان پھنس گئے


خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں سیکیورٹی کے معاملے پر ایک بڑا جرگہ منعقد ہوا جس میں علاقے کے لوگوں نے شرکت کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ 10 جون 2024
خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں سیکیورٹی کے معاملے پر ایک بڑا جرگہ منعقد ہوا جس میں علاقے کے لوگوں نے شرکت کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ 10 جون 2024
  • افغان سرحد سے منسلک پاکستانی علاقوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی نے وہاں آباد لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
  • عسکریت پسند مقامی آبادیوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں اور انکار کرنے والوں کی املاک جلا دیتے ہیں۔
  • رہائیشیوں کے مطابق سیکیورٹی حکام ان لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے پکڑ لیتے ہیں جن کے پاس عسکریت پسند جاتے ہیں۔
  • اس سال کے دوران بہت سے فوجی اور 70 کے لگ بھگ پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔
  • سیکیورٹی حکام کی کارروائیوں میں 117 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔
  • بڑھتی ہوئی چیک پوسٹس اور جانچ پڑتال سے مقامی آبادیاں پریشان ہیں۔

اسلام آباد "ہمیں ترقی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں۔" یہ کہنا ہے پاکستان کے ایک مایوس قبائلی عبدالخالق کا جن کا تعلق قبائلی ضلع کرم سے ہے۔

رواں ماہ کے شروع میں کرم کے مقامی باشندوں نے سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر مشاورت کے لیے ایک جرگہ منعقد کیا تھا۔

یہ جرگہ افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں ہونے والے جرگوں کا ایک تسلسل تھا جہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے تشدد اور فوجی کارروائیوں کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔

حالیہ عرصے میں کرم کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع مہمند، ٹانک، بنوں اور لکی مروت میں بھی جرگے ہو چکے ہیں جہاں عسکریت پسندوں کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مہمند کے ایک رہائشی نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست پر وائس آف امریکہ کو فون پر بتایا کہ ہمیں اپنا ڈر نہیں ہے۔ ہم اپنے بچوں اور خاندان کے لیے خوف زدہ ہیں۔

عسکریت پسندوں نے مئی میں ان کے ایک کزن کی سنگ مرمر کی فیکٹری کو آگ لگا دی تھی کیوں کہ انہوں نے بھتہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

مہمند میں ماربل کی درجنوں فیکٹریاں ہیں۔ واقعے کے بعد، بھتہ طلب کرنے کی فون کالز اور عسکریت پسندوں کی طرف سے تشدد کی دھمکیوں کی شکایت کے خلاف فیکٹری مالکان نے پانچ دن تک احتجاجی دھرنا دیا تھا جس کا اختتام حکومت کی جانب سے اس وعدے کے بعد کیا گیا کہ صنعتی علاقے میں مزید پولیس تعینات کی جائے گی۔

علاقے کے رہائشیوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ پتہ کبھی بھی نہیں چلتا کہ دھمکیاں دینے والے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو ہیں یا اس گروپ سے وابستہ افراد ہیں۔ یا پھر دیگر اسلام پسند عسکری گروہ ہیں۔

تاہم وہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے کا الزام امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے پر لگاتے ہیں جس کے نتیجے میں طالبان کو اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔

بہت سے لوگ ان واقعات میں اضافے کا ذمہ دار پاکستان کے اس متنازع اقدام کو بھی ٹھہراتے ہیں جس میں ٹی ٹی پی کے ہزاوروں جنگجوؤں کو ملک میں واپس آنے کی اجازت دی گئی تھی۔

ماضی میں پاکستانی طالبان اپنے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کے بعد افغانستان فرار ہو گئے تھے۔

پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت نومبر 2022 میں منقطع ہو گئی تھی۔ پاکستان افغان طالبان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے۔ کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

فوج پر ہراساں کرنے کا الزام

افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں رہنے والوں کو شکایت ہے کہ عسکریت پسند اکثر اوقات ان کے گھروں یا کاروبار کی جگہوں پر آ کر ان سے چائے اور کھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو علاقے میں سیکیورٹی ایجنسیوں کی بھاری موجودگی کے باعث وہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔

پتو لالہ بتانی ضلع ٹانک میں منعقد ہونے والے ایک بڑے جرگے میں شریک ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ مسلح افراد رات کے وقت ہمارے گھروں میں آتے ہیں اور کھانا مانگتے ہیں۔ پھر صبح فوج آتی ہے اور گھر کے مالک کو پکڑ کر تفتیش کے لیے لے جاتی ہے۔

ٹانک میں اس مہینے یہ جرگہ عام شہریوں، سرکاری ملازموں اور سیکیورٹی اہلکاروں پر عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر میں کیا گیا تھا۔

بتانی کا کہنا تھا کہ جب طالبان ہم سے بات کرتے ہیں تو ہم سیکیورٹی اداروں کی جانب سے مشکل میں آ جاتے ہیں اور جب ہم حکومتی عہدے داروں کے پاس جاتے ہیں تو طالبان ہمیں مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات محمد علی سیف کہتے ہیں کہ جب آپ شہری آبادیوں میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کارروائیاں کرتے ہیں تو اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ ان اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ شہری جب عسکریت پسندوں کے رابطے میں آتے ہیں تو انہیں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب کچھ قانون اور ضابطے کے مطابق کرنا مشکل ہے۔ کچھ ناگوار چیزیں ہو جاتی ہیں جس سے لوگ ہراساں ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایک طریقۂ کار موجود ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کے پاس اس بارے میں کوئی روحانی علم تو نہیں ہوتا کہ کون کس کے ساتھ سازش کر رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کی کہ فوجی آپریشن کے دوران شہریوں کو جسمانی یا مالی نقصان پہنچنے کی صورت میں انہیں مالی معاوضہ دیا جاتا ہے۔

محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز بھی مسلسل، مہلک حملوں کی زد میں آ رہی ہیں کیوں کہ وہ عسکریت پسندی سے لڑ رہی ہیں جس کا دائرہ اب سابق قبائلی علاقوں سے نکل کر آباد علاقوں تک پھیل چکا ہے۔

اس سال اب تک صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں عہدے داروں سمیت درجنوں فوجی اور کم از کم 70 پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

صوبائی محکمۂ انسداد دہشت گردی کی اس مہینے جاری ہونے والی نصف سال کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے کم از کم 237 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 299 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا جب کہ 117 مارے گئے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے گزشتہ ماہ میڈیا کو بتایا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے اس سال انٹیلی جینس کی بنیاد پر 13000 سے زیادہ کارروائیاں کیں جو زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئیں۔

نقل مکانی کا خوف

مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ فوجی کارروائیوں میں اضافہ انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ 2009 اور 2015 کے درمیان جب فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا تو لاکھوں پاکستانیوں کو اپنے ملک کے اندر بے گھر ہونا پڑا تھا۔

عبد الخالق کا کہنا تھا کہ جس طرح سیکیورٹی کی چیکنگ ہوتی ہے اور جس طرح سڑکوں پر جانچ پڑتال کی چوکیاں ہیں، اس سے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ چیزیں اسی جانب جا رہی ہیں جیسی 2009 میں تھیں۔ ہم سب ملک کے اندر بے گھر افراد بن گئے تھے۔ عبدالخالق کو کرم میں اس وقت اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم جو صورت حال دیکھ رہے ہیں، اس سے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں دوبارہ اسی دور میں دھکیلا جا رہا ہے۔

خیبرپختونخوا کے مشیرِ اطلاعات محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ ایسے خدشات بے بنیاد ہیں کیوں کہ حکام محدود پیمانے کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں ایسے کسی بڑے آپریشن کے کسی منصوبے کا علم نہیں ہے جس کے لیے یہاں رہنے والوں کو نقل مکانی کی ضرورت پڑے۔

جمعے کو اسلام آباد سے تقریباً 300 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ضلع لکی مروت کے رہائشیوں نے دہشت گردی کی روک تھام کی کارروائی کے خلاف احتجاجاً ایک ہائی وے کو بند کر دیا تھا۔

سیکیورٹی اداروں نے یہ کارروائی سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں ایک افسر سمیت سات فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کی تھی۔ اس سے چند روز پہلے پاکستانی فوج نے ایک کارروائی میں 11 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

سیکیورٹی کی خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال نے عبداللہ ننگیال بتانی کو، جنہوں نے لکی مروت سے تقریباً 90 کلومیٹر دور ٹانک کے جرگے میں شرکت کی تھی، اس فکر میں مبتلا کر دیا ہے کہ آیا انہیں اپنے خاندان کے ساتھ پیر کو عید کا تہوار منانے کے لیے اپنے گاؤں جانا چاہیے۔

اسلام آباد میں رہنے والے بتانی کا کہنا ہے کہ وہ ہر مہینے چار یا پانچ دن اپنے گاؤں میں گزرتے ہیں لیکن اس بار انہیں اپنے گاؤں گئے ہوئے دو تین مہینے ہو چکے ہیں۔

بتانی کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ حکومت ہماری حفاظت کرے گی۔ ہمیں اپنے علاقوں میں اسی طرح امن قائم کرنا چاہیے جیسا کہ ملک کے دیگر حصوں میں ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG