پاکستان میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں رائج قوانین کے خاتمے اور اصلاحات کے حق میں مختلف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں طلبہ نے بدھ کو گورنر ہاﺅس پشاور کے سامنے مظاہرہ کیا۔
مظاہرے کا اہتمام 'فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن' نے کیا تھا جس میں تمام سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے علاوہ قبائلی خواتین، سیاسی اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
اس موقع پر مظاہرے میں شریک باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک طالبِ علم نظام الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو قبائلی عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو ختم کرنے کے لیے جلد از جلد ان کے مطالبات تسلیم کرنے چاہئیں۔
مظاہرے میں شریک شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبِ علم محسن داوڑ نے کہا کہ قبائلی عوام کا مطالبہ ہے کہ فاٹا کو جلد از جلد خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے مطالبے کے حق میں فاٹا کے عوام نے پارلیمان کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے اور حکومت کی بنائی ہوئی ایک پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے فاٹا میں اصلاحات اور اسے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی سفارشات کے باوجود اس معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔
مظاہرے کے ایک اور شریک بلاول آفریدی کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھانے، خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی دینے اور قبائلی علاقوں کو فی الفورخیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
فاٹا کی مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں نے بھی قبائلی علاقوں میں رائج قوانین کے خاتمے اور سیاسی اور انتظامی اصلاحات کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ آئندہ چند روز میں جماعتِ اسلامی، پاکستان تحریکِ انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین ان مطالبات کے حق میں مختلف قبائلی علاقوں میں آگاہی بیدار کرنے کے لیے مہم بھی شروع کر رہے ہیں۔