وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی وزیرقانون کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے ذریعے رواج ایکٹ مجریہ 2017ء اور دیگر آئینی ترامیم قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ اس پر قانون ساز غور و خوض کر سکیں۔
قبائلی علاقوں میں اصلاحات کر کے اسے آئندہ پانچ سالوں میں بتدریج صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے سے متعلق کمیٹی کی سفارشات کو وفاقی کابینہ پہلے ہی منظور کر چکی ہے۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان اصلاحات کے قابل عمل ہونے سے قبائلی عوام کو مرکزی دھارے میں لانے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی و قبائلی عمائدین کی اکثریت حکومت سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ ان اصلاحات کو فوری طور پر نافذ کرنے کے لیے ضروری اقدام کیے جائیں بصورت دیگر قبائلی عوام احتجاجی مارچ کریں گے۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے راہنماؤں اور قبائلی عمائدین نے ایک کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کی اور اس میں بھی اسی مطالبے کو دہرایا گیا۔
قبائلی علاقوں کے قانون سازوں کے پارلیمانی راہنم شاہ جی گل نے اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے وزیراعظم کی طرف سے اصلاحات کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کا خیرمقدم تو کیا لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ کسی بھی تاخیر کی صورت میں قبائلی عوام احتجاج کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
کانفرنس میں شریک وزیراعظم کے مشیر برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ خان نے شرکا کو یقین دلایا کہ حکومت قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے لیے سنجیدہ ہے اور یہ مسودہ جلد ہی پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
مبصرین یہ کہتے آئے ہیں کہ اصلاحات میں نوآبادیاتی دور کے قانون "ایف سی آر" کو ختم کر کے جس رواج ایکٹ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اس کا ابہام سے پاک ہونا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور ماضی میں قائم کی گئی اصلاحاتی کمیٹیوں میں شامل رہنے والے اجمل میاں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی علاقوں سے متعلق کسی بھی طرح کی قانون سازی کے لیے قبائلیوں کو بھرپور طریقے سے اعتماد میں لینے سے ہی کوئی اقدام دیرپا ثابت ہو سکتا ہے۔