پاکستان کے صدر ممنون حسین نے نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے جمعرات کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی جمہویت نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں لیکن اس کے باوجود پارلیمان کا حقیقی مقاصد کے حصول کی طرف کامیابی سے سفر جاری ہے۔
پاکستان کی موجودہ پارلیمان کے پانچویں اور آخری پارلیمانی سال کے آغاز پر جمعرات کو صدر مملکت نے جیسے ہی اپنا خطا ب شروع کیا تو حزب اختلاف نے تھوڑی دیر شدید احتجاج کرنے کے بعد صدر کی تقریر کا بائیکاٹ کر دیا۔
صدر نے حزب اختلاف کے اراکین کی طرف سے 'گو نواز نواز گو' کے نعرے بلند کرنے کے باوجود اپنی تقریر جاری رکھی۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر کےخطاب کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف پارلیمان میں موجود تھے جبکہ مسلح افواج کے سربراہان، صوبوں کے گورنر و وزراء اعلیٰ اورکئی سفارت کار بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔
صدر ممنون حسین نے اپنی تقریر میں کہا کہ قوم کی ترقی اور خوشحالی کے پیش نظر سیاسی عمل کو انفرادی و گروہی مفادات سے آزاد کرنا ہو گا۔
" کوئی فرد یا گروہ انسانی اگر یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جارہا ہے تو مایوسی کے عالم میں وہ مفادات کے تحفظ کے لیے ناپسندیدہ راستے ضرور اختیار کرتا ہے اس طرح کی صورت میں قیادت ہی اپنی وسیع النظری اور عملی اقدامات سے عام آدمی کو احساس تحفظ فراہم کرتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور وفاق کے زیر اتنظام قبائلی علاقے ’فاٹا‘ کو قومی دھارے میں لانے کے اقدامات اسی عمل کا حصہ ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں کی بے سمت پالیسیوں کی وجہ سے قیمتی وسائل ضائع کر دیئے گئے۔
" اب احساس ضیاع بھی موجود ہے اورکچھ کرنے کاجذبہ بھی، ریاست کی کاروبار اور سرمایہ کار دوست پالیسیاں مختلف براعظموں کو ملا کر ایک (نئی) دنیا کی تخلیق کا ذریعے بننے والی پاک چین اقتصادی راہداری اور توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے بجلی کی پیداوار کے منصوبے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔"
صدر ممنون حسین نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پورے خطے کی ترقی و خوشحالی کا باعث بنے گا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے صدر ممنون نے کہا کہ پاکستان کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا ہے اور ان کے بقول علاقائی کشدیدگی ختم کر کے اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
"پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں لیکن ہماری پیشکش کا جواب اسی جذبے سے نہیں دیا گیا بلکہ خطے میں جاسوسی و تخریب کاری جیسی سرگرمیوں کو فروغ دے کر حالات خراب کر دیئے گئے۔"
صدر ممنون نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع جموں و کشمیر ہے اور اس مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے کا انعقاد ہے۔
بھارت کی طرف سے صدر ممنون حسین کے بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم بھارت قبل ازیں اسلام آباد کے ایسے الزمات کو مسترد کر چکا ہے۔ بھارت بھی کشمیر کے معاملے پر مذاکرات کا خواہاں ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
دوسری طرف حزب مخالف کے راہنما خورشید شاہ نے صدر کے پارلیمان میں خطاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کئی اہم قومی معاملات پر بات نہیں کی۔
پارلیمان کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر نے فاٹا اصلاحات سے متعلق کوئی بات نہیں کی ہے۔