"مجال ہے کہ یہ بچے چکن کے علاوہ کچھ اور کھا لیں۔" اِس بار ممّی اپنے دکھ کا اظہار ہماری پاکستانی ہمسائی سے کر رہی تھیں۔ ہمارے بارے میں جب بھی کسی سے یہ گلہ کیا جاتا تو ہم انجانے فخر سے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے، جیسے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو۔
"ہم" یعنی چار بہن بھائی، دو بہنیں اور دو بھائی۔۔۔ پہلے تینوں میں ایک ایک سال کا فرق ہے تو بھائی ہماری تو خوب جمی اور آج تک ہم وہی بچپن والے بہن بھائی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب اپنی شرارتوں سے ہمسایوں کا ناک میں دم نہیں کرتے۔
بچپن سعودی عرب کے شہر جدہ میں گزرا۔ کوئی رشتے دار آس پاس تھا نہیں۔ تو ہماری دنیا انہیں چھ افراد کے گرد گھومتی تھی۔ بہت رشتے بنانے کی عادت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔
ممّی بتاتی ہیں کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب سعودی عرب میں سبزیاں ملتی ہی نہیں تھیں۔ پھر کدو نظر آنے لگے اور آہستہ آہستہ کافی کچھ ملنے لگا۔ لیکن سعودی عرب میں رہنے والے اکثر دیسیوں کا متفقہ مؤقف ہے کہ وہاں کے پھل اور سبزیاں بالکل بے ذائقہ ہیں۔ خیر پاکستانی کسی بھی ملک میں جا کر آباد ہو جائیں، یہی گلہ کرتے ہیں۔
سبزیوں سے اِس تاخیر سے شناسائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچپن میں سبزیوں کی عادت ہی نہ بن پائی۔ بس ہر وقت چکن کی فرمائش۔ اور گوشت سے ہم بہن بھائیوں کو کچھ خاص بے زاری تھی۔ ممّی نے کھلانے کا ہر ٹوٹکا آزما لیا۔ ڈرا دھمکا کر، پیار سے، ناراضی دکھا کر۔ لیکن ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔
بڑی عید پر گھر میں گوشت کے پکوانوں کا راج ہوتا تو ہم بہن بھائی بڑے احتجاج کی پلاننگ شروع کر دیتے۔ بھوک ہڑتال کریں گے، دھرنے پر بیٹھ جائیں گے لیکن گوشت ہرگز نہیں کھائیں گے۔ تب میں چڑ کر ممّی سے کہا کرتی کہ لوگ بکرے کی ہر چیز ہی کھا جاتے ہیں۔ بس سینگ، کان اور دانت بچے ہیں۔ کسی دن اُسے بھی کھا جانے کی کوئی ریسیپی ڈھونڈ نکالیں گے۔
وہ تو امریکہ آکر پتا چلا کہ یہاں 'اوکس ٹیل' یعنی بھینسے کی دم، چکن کے پائے اور پِگ ایئرز بھی کھائے جاتے ہیں۔ یعنی 'کان کھانا' صرف محاورہ نہیں!
اسکول سے گھر واپس پہنچنے پر گوشت کا پکوان تیار ملتا تو ہم یک زبان ہو کر نعرہ بلند کرتے "ہم احتجاجی انڈہ کھائیں گے!" پھر ہم نے اپنے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے تمام سبزیوں اور چند دالوں کو بھی ممنوع اشیا کی فہرست میں شامل کر لیا۔
جب "احتجاجی" فرائی انڈوں سے بھی ہماری طبیعت بیزار ہو گئی تو ممّی نے انڈے کی ایک اور ترکیب ایجاد کی۔ جھٹ پٹ اور لذیذ بھی۔۔ یہی ریسیپی آج میں آپ کے ساتھ شیئر کروں گی۔
آپ کو صرف دو معصوم سی اشیا کی ضرورت ہے جو تقریباً ہر گھر میں موجود ہوتی ہیں: چند آلو اور چند انڈے۔۔ اب مجھ سے یہ مت پوچھیے گا کہ کتنے آلو اور کتنے انڈے؟ یہ آپ کی بھوک، کھانے والوں کی تعداد اور پسند پر منحصر ہے۔
میں درمیانے سائز کے دو سے تین آلو اور دو انڈے استعمال کرتی ہوں۔ تو جناب آلو چھیل کر کدوکش کر لیں۔ اپنی پسند کے مصالحے ڈال لیں (نمک بالکل آخر میں شامل کریں، ورنہ آلو پانی چھوڑ دیتے ہیں) آخر میں پھینٹے ہوئے انڈے شامل کریں۔ فرائنگ پین میں تیل گرم کریں اور اِس میں انڈے کا محلول ڈال دیں۔ ایک طرف سے پک جائے تو پلٹ کر دوسری طرف سے بھی پکا لیں۔
لیجیے! سیدھا سادہ اور جھٹ پٹ احتجاجی انڈا تیار ہے۔ باہر سے خستہ، اندر سے نرم۔ آپ چاہیں تو اپنی پسند کے اور اجزا بھی شامل کر سکتے ہیں۔ جیسے کدوکش پنیر، پیاز یا کوئی سبزی۔ کھانا پکانے کے لیے میں بھی ممّی کی طرح نت نئے تجربات پر یقین رکھتی ہوں۔ کبھی لگی لپٹی تراکیب فالو نہیں کیں۔ مسور کی دال سے لے کر چکن اور سبزی تک ہر شے کا آملیٹ ٹرائی کیا ہے۔
میں نے انٹرنیٹ پر اِس طرز کے آلو انڈے کی ترکیب بہت ڈھونڈی، لیکن نہیں ملی۔ پاکستان میں آلو انڈے کا سالن مشہور ہے۔ اٹالین 'فریٹاٹا' میں آلو اور سبزیوں کو کچھ پکا کر اُس میں انڈے شامل کیے جاتے ہیں جب کہ اہم یہودی تہوار حنوکاہ سے منسوب 'لیٹکاز' (آلو کے پین کیکس) اور امریکی ناشتے کا پسندیدہ جزو 'ہیش براؤنز' ممّی کے ایجاد کردہ احتجاجی انڈے سے قریب ترین ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اِن میں آلو انڈے کو ٹکیوں کی شکل دے کر تیل میں فرائی کیا جاتا ہے۔ میرے خیال سے ممّی جان کو اپنی اِس ترکیب کے جملہ حقوق اب محفوظ کرالینے چاہئیں۔
کبھی کبھار سادہ سی اشیا زندگی میں سب سے زیادہ مزا دیتی ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میں زندگی میں سادگی کی قائل ہوں۔ خواہ رشتے ہوں یا کھانے کی تراکیب۔ بھائی کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ فل ٹائم جاب کے بعد مزید دو تین گھنٹے لگا کر مشکل والے دیسی کھانے بھی بنائے۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ "ڈونٹ ورک ہارڈ، ورک اسمارٹ۔" مطلب (بلاوجہ) کی محنت نہ کریں، عقل لڑائیں۔
بائی دی وے آپ بھی ایک بار احتجاجی انڈا ضرور کھا کر دیکھیں۔ جلسوں والا نہیں بلکہ اِس ریسیپی والا!