رسائی کے لنکس

کشمیری رہنما عمر عبداللہ ساڑھے سات ماہ بعد رہا


نیشنل کانفرنس کے نائب صدر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کو منگل کے روز ساڑھے سات ماہ بعد رہا کیا گیا۔

وہ بھارتی زیرِ انتظام کے اُن سیکڑوں سیاسی لیڈروں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طر ف سے اس کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے اور متنازع ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست نئی دہلی کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے اقدام سے چند گھنٹے پہلے حراست میں لیا گیا تھا۔

چھ ماہ تک احتیاطی حراست میں رکھنے کے بعد حکومت نے عمر عبداللہ کو حال ہی میں سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ یا پی ایس اے کے تحت مزید تین ماہ تک نظر بند رکھنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں 1978 سے نافذ پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر مقدمہ چلائے بغیر چھہ ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔

عمر عبداللہ کی چھوٹی بہن سارہ پائلٹ نے انہیں پی ایس اے کے تحت قید کرنے کے حکومت کے اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالتِ اعظمیٰ نے گزشتہ ہفتے سارہ پائلٹ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انتظامیہ سے استفسار کیا تھا کہ کیا وہ عمر عبداللہ کو رہا کرنے کا کوئی منصوبہ رکھتی ہے۔

منگل کو حکومت نے عمر عبداللہ کی پی ایس اے کے تحت نظر بندی کے حکم نامے کو واپس لینے کا اعلان کیا جس کے فوراً بعد انہیں سرینگر کے گپکار علاقے میں واقع ہری نواس گیسٹ ہاؤس سے جسے حکام نے ایک عارضی جیل میں تبدیل کیا تھا رہا کیا گیا۔

پچاس سالہ عمر عبداللہ نے منگل کو گھر پہنچنے پر وہاں ان کے انتظار کمیں بیٹھے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہ گزشتہ ساڑھے سات ماہ کے دوراں جموں و کشمیر میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور یہ وہ ریاست نہیں رہی ہے جو 5 اگست 2019 سے پہلے تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ جیل سے باہر آنے کے بعد بہت کچھ کہنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرے سے پیدا شدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر فی الحال کشمیر کی سیاسی صورتحال پر بات نہیں کریں گے۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ"ایسا بہت کچھ ہے جس پر میں رہائی ملنے کے بعد آپ کے ساتھ بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن اس وقت ہم ایک ایسی صورتِ حال کا سامنا کررہے ہیں جس میں ہماری ترجیح اس خطر ناک وائرس سے لڑنا ہونی چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہم، ہمارے افرادِ خانہ، دوست اور پڑوسی اس وائرس کے غضب ناک حملے سے محفوظ رہیں۔ ہم جب اس وائرس کو ہرانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور یہ خطرہ ٹل جائے گا تو اُس کے بعد ہی میں آپ سے 5 اگست 2019 کو اٹھائے گیے اقدامات، بعد کے واقعات اور ان کے مضمرات پر کھل کر بات کرونگا"۔ عمر عبداللہ نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے آپ کو اس وبا سے بچائیں۔

اس سے پہلے 13 مارچ کو عمر عبداللہ کے والد اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے تین مرتبہ رہ چکے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کی پی ایس اے کے تحت نظر بندی کے حکم نامے کو واپس لیکر انہیں رہا کیا گیا تھا۔ تاہم، حکام نے اسی قانون کے تحت قید ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کی رہائی کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔

حال ہی میں پہلے سے زیرِ حراست جن سیاسی لیڈروں کو پی ایس اے کے تحت قید کیا گیا ان میں نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر اور ہلال احمد لون، پی ڈی پی کے محمد سرتاج مدنی، نعیم اختر اور پیرزادہ منصور احمد اور سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر شاہ فیصل شامل ہیں۔ ان کے علاوہ پولیس نے 5 اگست 2019 سے پہلے یا اس کے فورا" بعد چھ ہزار کے قریب ایسے افراد کو بھی حراست میں لے لیا جن کے بارے میں اس کا دعویٰ تھا کہ وہ امن و امان میں خلل ڈال رہے تھے یا ایسا کر سکتے تھے۔ تاہم، ان میں سے بیشتر کو اب رہا کیا جا چکا ہے۔

عمر عبداللہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے محبوبہ مفتی اور نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر اور بھارت کی مختلف ریاستوں کی جیلوں میں بند کشمیر سے تعلق رکھنے والے تمام دوسرے سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرنے کی اپیل کی۔ تقریبا" دو ہفتے پہلے اُن کے والد کو رہا کیا گیا تو انہوں نے بھی تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی تک کوئی بھی سیاسی بیان دینے سے انکار کیا تھا۔

بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں اور کئی مقامی سیاسی لیڈروں اور جماعتوں نے جن میں خود نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل ہیں عمر عبداللہ کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ تمام مقامی سیاسی قیدیوں کی نظر بندی کو بھی فوری طور پر ختم کیا جائے۔ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے اپنی والدہ کی جانب سے کی گئی ایک ٹویٹ کے ذریعے عمر عبداللہ کی رہائی پر کہا "خوشی ہوئی کہ انہیں رہا کیا گیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت خواتین سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہے"۔

اس دوران استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نظر بند سیکڑوں لیڈروں اور کارکنوں اور دوسرے مقامی قیدیوں کے رشتے داروں نے بھی کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ دہرایا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG