رسائی کے لنکس

کرونا وائرس: بھارتی کشمیر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ


کرونا وائرس نے دنیا کے اکثر ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔جس پر قابو پانے کے لیے کئی ملکوں نے اپنے ایئرپورٹ بند کر دیے ہیں یا مسافروں کو قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
کرونا وائرس نے دنیا کے اکثر ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔جس پر قابو پانے کے لیے کئی ملکوں نے اپنے ایئرپورٹ بند کر دیے ہیں یا مسافروں کو قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

بھارت اور دنیا کے کئی دوسرے حصوں میں جان لیوا کرونا وائرس یا کووڈ-19 کے تیزی کے ساتھ پھیلاؤ کے پیشِ نظر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے وکلاء کی تنظیم نے وادی جموں اور بھارت کی مختلف ریاستوں کی جیلوں میں بند اپنے صدر میاں عبدالقیوم اور جنرل سیکرٹری محمد اشرف بٹ سمیت تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کو سری نگر میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ بھارت اور دنیا کے بعض دوسرے ممالک میں کووڈ-19 سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے پیشِ نظر اس کے ممبران اپنے صدر میاں عبدالقیوم جو پہلے ہی کئی امراض میں مبتلا ہیں اور سینکڑوں دوسرے قیدیوں کی صحت و عافیت کے حوالے سے بے حد پریشان ہیں۔

کشمیر بار کونسل کے صدر ان کئی ہزار سیاسی لیڈروں اور کارکنوں، تجارتی انجمنوں کے عہدیداروں، سول سوسائٹی گروپس کے سرکردہ ممبران اور وکلاء میں شامل ہیں، جنہیں بھارتی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے اور متنازع ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہِ راست وفاقی کنٹرول کے علاقے بنانے کے اقدام سے پہلے یا اس کے فوراً بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر کو رہا کیا جا چکا ہے، لیکن کئی سو افراد اب بھی جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف ریاستوں کے جیل خانوں اور دوسرے حراستی مراکز میں قید ہیں۔ ان میں دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔

ان قیدیوں کے رشتے دار بھی ان کی صحت و عافیت کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے تین مرتبہ رہ چکے وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے، جنہیں ساڑھے سات ماہ تک قید میں رکھنے کے بعد گزشتہ جمعے کو رہا کیا گیا تھا، حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ کم سے کم ان کی رہائی تک کشمیر سے تعلق رکھنے والے اُن قیدیوں کو واپس لاکر وادی کی جیلوں میں رکھا جائے جو بھارت کی دور دراز ریاستوں میں پابندِ سلاسل ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ مل کر نئی دہلی میں نریندر مودی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔

کووڈ-19 کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر سرینگر اور وادی کے دوسرے حصوں میں تمام پارکوں اور باغات کو، جن میں مشہورِ زمانہ مغل باغات بھی شامل ہیں اور جموں کے علاقے میں ریستورانوں اور دوسرے طعام خانوں کو تا حکمِ ثانی بند کر دیا گیا ہے، جب کہ سرکاری دفاتر میں، جن میں سرمائی صدر مقام جموں میں واقع سول سیکریٹریٹ بھی شامل ہے، عام لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے یا اسے محدود کر دیا گیا ہے۔

عوامی جلسوں اور دوسرے اجتماعات کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے اور کم سے کم چار اضلاع میں دفعہ 144 کے تحت کسی بھی ایک جگہ چار یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے کو غیر قانونی قرار دیدیا گیا ہے۔

جموں میں سنیما گھر بند کر دیے گئے ہیں۔ (وادیء کشمیر میں کوئی سنیما گھر موجود نہیں ہے)۔ اس سے پہلے پورے جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقے میں تمام تعلیمی اداروں اور بچوں کی نگہداشت کے لیے دیہی علاقوں میں قائم (آنگن واڑی) مراکز کو 31 مارچ تک بند رکھنے کا حکم صادر کیا گیا تھا۔

حکومت اور بلدیاتی اداروں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر مذہبی اجتماعات، شادی بیاہ پر پارٹیاں دینے اور دوسری سماجی تقریبات منعقد نہ کرنے یا ان میں کم افراد بلانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

پیر کو سرمائی دارالحکومت جموں میں جاری کیے گیے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر میں اب تک کووڈ- 19 کے اب تک صرف دو مثبت کیس سامنے آئے ہیں جب کہ تقریباً اڑھائی ہزار افراد کو نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر کی نگرانی ان کے گھروں میں کی جا رہی ہے۔ صرف 29 افراد اسپتالوں اور 178 گھروں میں قرنطینہ کی مقررہ مدت گزار رہے ہیں۔

تازہ اطلاع یہ ہے کہ جموں اور لداخ میں دو اور افراد کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ جس سے جموں میں مریضوں کی تعداد بڑھ کر تین اور لداخ میں چار ہو گئی ہے۔

حکام نے اعلان کیا ہے کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی سری نگر اور جموں دونوں ونگوں میں 31 مارچ تک صرف فوری نوعیت کے مقدمات کی پیروی ہو گی اور انتہائی اہم معاملات کو ہی سنا جائے گا۔ عدالتوں اور وکلاء کے چیمبرز میں بھیڑ کو کم کرنے کے لیے مقدمات کے فریقوں اور دوسرے متعلقین کے داخلےپر بھی بعض پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG