رسائی کے لنکس

وزیرستان کی کم سن فٹ بال پلیئر مستقبل میں ڈاکٹر بننے کی خواہش مند


عاصمہ حافظ تیسری جماعت کی طالبہ ہیں اور اسکول میں ہونے والے اکثر مقابلوں میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔
عاصمہ حافظ تیسری جماعت کی طالبہ ہیں اور اسکول میں ہونے والے اکثر مقابلوں میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔

جنوبی وزیرستان کی رہائشی عاصمہ حافظ کی فٹ بال کو کک مارنے کی تصویر کو سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی ہے۔ وہ تیسری جماعت کی طالبہ ہیں اور اسکول میں کھیلوں کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتی ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے مرکزی انتظامی علاقے وانا کے نواحی گاؤں تنائی سے تعلق رکھنے والی عاصمہ حافظ کی ایک تصویر، جس میں وہ فٹ بال کو کک مارتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں، ان دنوں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گردش کر رہی ہے۔

اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بچی اسکول یونیفارم میں فٹ بال کو مہارت سے کک لگا رہی ہیں۔

عاصمہ حافظ نے وائس آف امریکہ سے ٹیلیفون پر گفتگو میں تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی فٹ بال کو کک لگاتی ہوئی تصویر اسکول میں کھیلوں کے مقابلوں کے دوارن کھینچی گئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں فٹ بال سمیت کئی ایک کھیلوں سے بہت لگاؤ ہے اور وہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسکول میں کھیلوں کے مقابلوں میں بھر پور حصہ لیتی ہیں۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دین محسود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر عاصمہ حافظ کی فٹ بال کو کک مارنے کی تصویر پر بہت سے لوگ بچی کی صلاحیتوں کی تعریف کر رہے ہیں اور داد بھی دے رہے ہیں۔ تاہم بعض مقامی قدامت پسند حلقے اس تصویر پر تنقید کرتے ہیں اور اس کو قبائلی روایات کے منافی قرار دے رہے ہیں۔

عاصمہ حافظ پہاڑی گاؤں تنائی کے ایک نجی اسکول میں تیسری جماعت کی طالبہ ہیں۔ اس اسکول کے پرائمری سیکشن میں عاصمہ حافظ سات طالبات میں سے ایک ہیں۔

اسکول کے پرنسپل شاہ حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسکول کے اسپورٹس گالا میں مختلف کھیل ہوتے ہیں جن میں طلبہ حصہ لیتے ہیں۔ ان مقابلوں میں فٹ بال بھی شامل ہے اور عاصمہ حافظ بھی فٹ بال پلیئرز میں نمایاں ہیں۔

شاہ حسین نے کہا کہ عاصمہ حافظ نہ صرف کھیلوں میں دلچسپی لیتی ہیں بلکہ وہ قابل، ذہین اور منفرد طالبات میں بھی سرِ فہرست ہیں۔ وہ اسکول میں منعقد کی جانے والی تقاریب کے خصوصاََ تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیتی رہتی ہیں۔

دہشت گردی کے باعث جنوبی اور شمالی وزیرستان میں بچوں کی تعلیم، کھیل کود سمیت زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق سیکیورٹی اداروں کی کارروائیوں سے اب حالات کسی حد تک معمول پر آ گئے ہیں۔

عاصمہ حافظ کے مطابق وہ تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بننے کی خواہش مند ہیں۔ البتہ ان کے علاقے میں اسکولوں کی کمی ہے۔ جو ان جیسی بچیوں کے مستقبل کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

عاصمہ کی والدین کی خواہش ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بنیں۔ کیوں کہ اس علاقے میں کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ہے۔

والدین کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ عاصمہ ڈاکٹر بن کر علاقے کی خدمت کرے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے۔ جب کہ وہ اسکول میں کھیلوں میں بھی حصہ لیتی رہتی ہے۔ اگر وزیرستان کے بچوں اور بچیوں کو کھیل کی بھی بہتر سہولیات اور مواقع میسر آ سکیں تو یہ آگے چل کر اس خطے کا نام روشن کریں گے۔

XS
SM
MD
LG