بلوچستان کے علاقے مچھ میں پیش آنے والے واقعے میں ہلاک ہونے والے 11 کان کنوں کے لواحقین کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کامیاب ہو گئے جس کے بعد مظاہرین نے دھرنا ختم کرکے ہلاک ہونے والے کان کنوں کی تدفین کر دی۔ جب کہ وزیرِ اعظم نے بھی کوئٹہ کا دورہ کیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان ہفتے کو اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے۔ جہاں وزیرِ اعلیٰ ہاوس میں وزیرِ اعظم کو سانحہ مچھ اور لواحقین کے احتجاج سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد اور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی بھی موجود تھے۔
اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی پہنچے جہاں نے انہوں نے مچھ واقعے میں ہلاک ہونے والے کان کنوں کے لواحقین سے ملاقات کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ سانحہ مچھ ایک بڑی گیم کا حصہ تھا۔ کابینہ کو گزشتہ سال مارچ میں بھارت کی جانب سے پاکستان میں سنی شیعہ فسادات کی سازش سے آگاہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ واقعے سے قبل کراچی میں ایک سنی عالم دین کو قتل کیا گیا۔ جب کہ شیعہ علما کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ تا کہ دونوں جانب انتشار پھیلایا جا سکے۔
وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ میں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ 20 سال سے ہونے والے مظالم سے آگاہ ہوں۔ مچھ واقعے کے لواحقین کا خیال رکھا جائے گا۔ جب کہ پوری ہزارہ برادری کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
قبل ازیں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ لواحقین مچھ واقعے میں ہلاک ہونے والے کان کنوں کی تدفین کر دیں۔ جس کے بعد وہ لواحقین سے اظہار تعزیت کے لیے کوئٹہ جائیں گے۔
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں علامہ ہاشم موسوی نے ہلاک ہونے والے کان کنوں کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جس میں وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
مجلس وحدت المسلمین کے رہنماؤں کے مطابق ہزارہ شہید قبرستان میں 10 قبریں کھو دی گئی ہیں۔ کیوں کہ رہنماؤں کے مطابق تمام میتوں کے ورثا کوئٹہ میں ہی موجود ہیں۔ اس لیے تمام میتوں کو یہاں دفنایا جائے گا۔
مذاکرات کامیاب
اس سے قبل ہفتے کی شب رات ایک بجے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال، وفاقی وزار اور مذاکراتی کمیٹی دھرنے کے مقام پر پہنچے۔ جہاں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کی کمیٹی نے حکومت کی جانب سے تمام مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد دھرنا ختم اور میتوں کی تدفین کا اعلان کیا۔
لواحقین کی کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو تحریری شکل دی گئی ہے۔ جس میں دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سانحہ مچھ کی تحقیقات کے لیے وزیرِ داخلہ بلوچستان کی سربراہی میں خصوصی کمیشن بنایا جائے گا۔
کمیشن میں بلوچستان اسمبلی کے دو اراکین، ڈی آئی جی سطح کا افسر اور لواحقین کے دو افراد شامل ہوں گے۔
تحریری معاہدے کے مطابق خصوصی کمیشن نے اگر ذمہ دار افسران کو واقعے میں ملوث پایا تو ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
معاہدے کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے شہدا کے لواحقین کو فی کس 15 لاکھ روپے کا امدادی چیک دیے جائیں گے۔
حکومت اور لواحقین کے درمیان خصوصی کمیشن کے ٹی او آرز بھی طےکر لیے گئے ہیں۔ جن کے مطابق خصوصی کمیشن سانحہ مچھ کی تحقیقات کی نگرانی کرے گا اور کمیشن گزشتہ 22 سال میں ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات کرے گا۔ جب کہ ہزارہ برادری کے لاپتا افراد کی بھی تحقیقات ہو گی۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلہ فیلڈ کے قریب رواں ماہ 3 جنوری کو مسلح افراد نے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کو ہلاک کیا تھا۔ جس کے بعد سے مسلسل چھ روز تک لواحقین نے احتجاجاً کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے مقام پر میتوں کے ہمراہ دھرنا دے رکھا تھا۔
حکومت سے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد مجلس وحدت المسلمین نے پاکستان کے دیگر شہروں میں جاری دھرنوں کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سانحہ مچھ میں ملوث ملزمان کی نشاندہی کے لیے بلوچستان حکومت نے عوام سے مدد مانگ لی ہے۔
حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹی فیکشن میں شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ اگر انہیں سانحہ مچھ میں ملوث ملزمان کے حوالے سے کوئی معلومات ہیں تو فراہم کریں۔
بلوچستان حکومت نے کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان سے متعلق اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا اور اُسے صوبائی حکومت کی جانب سے 20 لاکھ روپے انعام بھی دیا جائے گا۔