سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادوں نے پاناما پیپرز کیس کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواستوں کی شنوائی مؤخر کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پانامہ فیصلے کے خلاف تمام اپیلیں ایک ہی بینچ کے سامنے لگائی جائیں اور پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی پہلے سماعت کے لیے مقرر کی جائیں۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا تین رکنی بینچ، پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں نہیں سن سکتا۔
میاں محمد نواز شریف کے صاحبزادوں کی طرف سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی اور پانچ رکنی بینچوں کے فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
تاہم ان کے بقول 12 ستمبر کو صرف تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہیں جس پر عدالت سے استدعا ہے کہ پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی سماعت کے لیے مقرر کی جائیں۔
درخواست میں اعتراض کیا گیا ہے کہ شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف 28 جولائی کو ہونے والے پاناما کیس کے فیصلے پر نظرِثانی کی درخواستوں کی سماعت تین کے بجائے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ کو کرنی چاہیے۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدرکامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ رولز کے مطابق نظرِثانی کی درخواستوں کی سماعت اسی بینچ کو کرنی چاہہیے جس نے کیس کا فیصلہ کیا ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ شریف خاندان کی درخواست کی سماعت تین رکنی بینچ کر رہا ہے جبکہ مذکورہ کیس کا فیصلہ پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے کیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 28 جولائی کو اپنے فیصلہ میں نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کو ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
فیصلے کی روشنی میں نیب کی طرف سے شریف خاندان کےخلاف چار ریفرنس گزشتہ ہفتے احتساب عدالت میں دائر کیے جاچکے ہیں جب کہ شریف خاندان نے پاناما کیس کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں نظرثانی کی اپیلیں بھی دائر کردی ہیں جن میں سے ایک درخواست کی سماعت منگل کو ہوگی۔