رسائی کے لنکس

نوازشریف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت 12 ستمبر کو ہو گی


درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاناما کیس کا فیصلہ قانون کے خلاف اور حقائق کے منافی ہے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد دوبارہ پانچ رکنی بینچ تشکیل نہیں دیا جاسکتا , جبکہ جے آئی ٹی کی تشکیل اور تعریف درخواست گزار کے بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کی خلاف ورزی ہے۔

علی رانا

نظرثانی درخواستوں میں نواز شریف نے عدالت عظمٰی سے 28 جولائی کے فیصلے اور اس پر مزید عمل درآمد کو روکنے کی استدعا کی ہے۔

درخواستوں میں کہا گیا کہ 20 اپریل کا فیصلہ 28 جولائی کے فیصلے کا لازمی حصہ نہیں بن سکتا، 20 اپریل کے فیصلے کے بعد پاناما عمل درآمد کیس کے لیے تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کے بچوں اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی پاناما کیس فیصلے میں نظرثانی کی اپیلیں 12 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ درخواستوں کی سماعت کرے گا، جس کے دیگر دو اراکین میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کی کاز لسٹ
سپریم کورٹ کی کاز لسٹ

نظرثانی درخواستوں میں نواز شریف نے عدالت عظمیٰ سے 28 جولائی کے فیصلے اور اس پر مزید عمل درآمد کو روکنے کی استدعا کی ہے۔

درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاناما کیس کا فیصلہ قانون کے خلاف اور حقائق کے منافی ہے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد دوبارہ پانچ رکنی بینچ تشکیل نہیں دیا جاسکتا , جبکہ جے آئی ٹی کی تشکیل اور تعریف درخواست گزار کے بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کی خلاف ورزی ہے۔

درخواستوں میں کہا گیا کہ 20 اپریل کا فیصلہ 28 جولائی کے فیصلے کا لازمی حصہ نہیں بن سکتا، 20 اپریل کے فیصلے کے بعد پاناما عمل درآمد کیس کے لیے تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

نظرثانی کی درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے دو ججز کا عمل درآمد فیصلے میں شامل ہونا قانونی نہیں، جبکہ جے آئی ٹی کے ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اپنی رپورٹ مکمل نہیں کی۔

درخواستوں میں ماتحت عدلیہ کی نگرانی کے لیے جج مقرر کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا اور کہا گیا کہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عدالت عظمیٰ ماتحت عدلیہ کی سماعت کی نگرانی کرے، جبکہ نیب عدالتوں کی نگرانی کرنا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

XS
SM
MD
LG