پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ''بلوچستان میں رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا بھی چھوٹ جاتا ہے۔ نیب نے کرپشن مقدمات کو مذاق بنا رکھا ہے''۔
اپنے ریمارکس میں عدالت عظمیٰ نے مزید کہا کہ ''قومی احتساب بیورو نے 30 دن میں ٹرائل مکمل کرنا ہوتا ہے جو 30 ماہ میں بھی نہیں ہوتا۔ قوم کے پیسے سے تنخواہ لے کر قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں''۔
سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے رکن اور انسداد کرپشن کے ادارے نیب بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل، عرفان نعیم منگی کی کارکردگی پر ''عدم اطمینان'' کا اظہار کیا۔
عدالت نے قومی احتساب بیورو کی ''ناقص کارکردگی'' پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''نیب کا ادارہ کرپشن کا سہولت کار بن چکا ہے''۔
اپنے ریمارکس میں، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ''کیوں نہ ڈی جی نیب بلوچستان کو بھی شریک ملزم بنایا جائے''۔
بقول جسٹس فائز عیسیٰ، ''نیب اہلکاروں کے خلاف مقدمات بنیں گے تو ہی بہتری آئے گی۔ نیب کرپشن کا سہولت کار بن چکا ہے، بلوچستان میں کئی اہم مقدمات تاخیر کا شکار ہیں''۔
عدالت کے جج نے کہا ہے کہ ''قوم کے پیسے سے تنخواہ لے کر قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ قوم کے 771 ملین چوری ہوگئے اور نیب سو رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو نے آج تک 30 دن میں کوئی ٹرائل مکمل نہیں کیا''۔
سپریم کورٹ کے ججز نے یہ ریمارکس گندم کرپشن کیس میں گرفتار بلوچستان حکومت کے سابق وزیر خوراک اسفند یار خان کاکڑ کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران دئے۔ عدالت نے اسفندیار خان کی پچاس لاکھ کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی۔