سابق وزیراعظم نواز شریف کا قافلہ اسلام آباد سے لاہور کے سفر میں کئی گھنٹوں تک چلنے کے بعد نصف شب روال پنڈی پہنچا۔ اس وقت تک ان کے جلوس میں ہزاروں گاڑیاں اور لوگ شامل ہو چکے تھے۔ اور پندرہ منٹ کا فاصلہ 12 گھنٹوں میں طے ہوا۔
اپنے سفر کے پہلے پڑاؤ پر سابق وزیر اعظم نے اپنے کنٹینر سے خطاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کروڑوں لوگ اپنے ووٹوں سے وزیر اعظم منتخب کرتے ہیں اور چند افراد اسے نکال دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کو رسوا کرکے نکالنا عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خلاف کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے۔ میرا دامن صاف ہے۔ مجھے اس لیے نکالا گیا کہ میں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی۔ جب تنخواہ لی ہی نہیں تو ڈکلیئر کہاں سے کرتا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کسی بھی وزیراعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اس ملک میں 18 وزیر اعظم کسی نہ کسی بہانے سے نکالے جا چکے ہیں۔ کسی کو پھانسی دی گئی، کسی کو ہتھ کڑیاں لگائی گئیں۔ کسی کو جلا وطن کیا گیا۔ وزیر اعظم کے حصے میں اوسطاً ڈیڑھ سال کی حکومت آتی ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اب ہمیں پاکستان بدلنا ہے۔ اب مجھے وزیر اعظم نہیں بننا، اب میں اس ملک میں عوام کے حق کے لیے نکلا ہوں ۔ ہم نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں۔
لاہور کے لیے راول پنڈی سے ریلی کا سفر صبح شروع ہو گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قافلے کو لاہور پہنچنے میں تین دن لگ سکتے ہیں۔
نواز شریف نے بدھ کی دوپہر اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس سے اپنے سفر کا آغاز کیا جہاں وہ گزشتہ دو روز سے مقیم تھے اور پارٹی رہنماؤں سے مشاورت میں مصروف تھے۔
پنجاب ہاؤس سے روانگی کے وقت وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کو رخصت کیا۔
نواز شریف کے قافلے میں مسلم لیگ (ن) کے کئی مرکزی رہنما اور سیکڑوں کارکنان بھی ہیں جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ خیبر پختونخوا، گلگلت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے قافلے میں شرکت کے لیے پہنچے ہیں۔
نواز شریف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ’ڈی چوک‘ سے گزرتے ہوئے فیض آباد پہنچے ہیں جہاں سے وہ راولپنڈی سے ہوتے ہوئے براستہ جی ٹی روڈ لاہور جائیں گے۔
اس دوران وہ راستے میں پڑنے والے مختلف شہروں میں ن لیگ کے کارکنان سے خطاب بھی کریں گے۔
جی ٹی روڈ پر واقع مختلف شہروں میں نواز شریف کے استقبال کی تیاریاں گزشتہ کئی روز سے جاری ہیں۔
صوبہ پنجاب، خاص طور پر لاہور روایتی طور پر نواز شریف کا سیاسی گڑھ رہا ہے اور ان کے جی ٹی روڈ سے سفر کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنی سیاسی قوت اور مقبولیت کا اظہار قرار دیا جارہا ہے۔
پنجاب کے محکمۂ صحت کے مطابق جی ٹی روڈ پر واقع 13 بڑے سرکاری اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے ڈاکٹروں اور دیگر تمام عملے کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔
نواز شریف کے سفر کا اختتام لاہور میں ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن پر ہوگا جو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120 میں واقع ہے جہاں سے وہ 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے گزشتہ ماہ پاناما لیکس سے متعلق ایک مقدمے میں میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دیتےہوئے ان کے اور ان کے بچوں کے مبینہ بیرونِ ملک اثاثوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
عدالتی فیصلے کے فوراً بعد نواز شریف اپنے عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی کو قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے وزیرِاعظم منتخب کرلیا تھا۔
عدالت کی جانب سے نااہل قرار دینے کے باعث نواز شریف کسی سیاسی جماعت کا منتخب عہدہ بھی نہیں رکھ سکتے جس کے باعث انہیں اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی صدارت بھی چھوڑنا پڑی ہے۔
تاہم حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا الزام ہے کہ نااہل ہونے کے باوجود اب بھی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے تمام فیصلے نواز شریف ہی کر رہے ہیں۔
نواز شریف اور اُن کی جماعت کا موقف ہے کہ انہوں نے عدالتی فیصلے پر تحفظات کے باجود عمل درآمد کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے گی جب کہ نواز شریف اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے کر جائیں گے۔
حزبِ مخالف کی جماعتوں خاص طور پر تحریک انصاف کی طرف سے نواز شریف کے جلوس کی صورت میں لاہور جانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم اپنی اس سیاسی مہم جوئی کے ذریعے اداروں پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کے رہنما ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ اُن کی جماعت کسی طرح کا ٹکراؤ نہیں چاہتی۔