امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے منگل کے روز کہا ہے کہ اُنھوں نے گذشتہ سال واشنگٹن میں روسی سفیر سے دو بار ملاقات کی، اور یہ کہ یہ تاثر کہ اُنھوں نے گذشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں روسی اہل کاروں کے ساتھ کسی قسم کا گٹھ جوڑ کیا ’’انتہائی ہولناک اور زہریلہ جھوٹ‘‘ ہے۔
سیشنز نے یہ بات سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سماعت کے دوران اپنے ابتدائی بیان میں کہی، جو اس بات کی تفتیش کر رہی ہے آیا انتخابات میں روسی مداخلت ہوئی، جس کا مقصد صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی میں مدد دینا تھا۔
سیشنز نے کہا کہ انتخابات میں روسی مداخلت کی تفتیش کے پیشِ نظر اُنھوں نے اپنے آپ کو معاملے سے علیحدہ کر رکھا ہے؛ چونکہ محکمہٴ انصاف کے ضابطے اس بات کی اجازت دیتے ہیں، اور اِس لیے بھی کہ وہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ایک کلیدی مشیر رہ چکے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اُنھیں رابرٹ مولر کی سربراہی میں اِس وقت کی جانے والی تفتیش سے متعلق ’’کوئی علم‘‘ نہیں، جو ایف بی آئی کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں، جنھیں سیشنز کے معاون اٹارنی جنرل راڈ روزنسٹائن نے خصوصی مشیر کے طور پر نامزد کیا، تاکہ وہ روس سے متعلق تفتیش کر سکیں، جس معاملے سے سیشنز نے اپنےآپ کو علیحدہ کر رکھا ہے۔
سیشنز نے کہا کہ ’’مجھے مسٹر مولر پر اعتماد ہے‘‘۔ لیکن، اُنھوں نے مزید کہا کہ اُنھیں اخبارات میں آنے والی اِس خبر کے بارے میں کچھ علم نہیں آیا ٹرمپ مولر کو فارغ کرنے والے ہیں، جنھیں ایک ماہ قبل تعینات کیا گیا تھا۔
باربار پوچھے گئے سوال کے باوجود، سیشنز نے اس بات کا جواب دینے سے احتراز کیا آیا اُن کی صدر کےساتھ کیا گفتگو ہوئی ہے۔ اُنھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ یہ اُن کی صدر کے ساتھ نجی گفتگو ہے۔
سیشنز نے کہا کہ وہ روسی سفیر، سرگئی کسلیاک سے دو بار مل چکے ہیں، ایک گذشتہ سال ری پبلیکن پارٹی کے نیشنل کنوینشن کے موقعے پر اور دوسری بار سینیٹ کے اپنے دفتر میں۔ لیکن، ٹرمپ کی انتخابی مہم سے وابستگی کے طور پر ملاقات نہیں ہوئی، بلکہ امریکی سینیٹر کی حیثیت سے۔ یہ وہ وقت تھا جب ٹرمپ نے ملک کے قانون کے نفاذ کے ادارے کے سربراہ کے طور پر ابھی اُنھیں نامزد نہیں کیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں یاد نہیں کہ واشنگٹن کے ایک ہوٹل میں ملاقات کے دوران اُن کی کسلیاک کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی، جہاں امور خارجہ کے موضوع پر ٹرمپ کے خطاب کے موقعے پر دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران اُنھوں نے روس کے حوالے سے کوئی ایسی بات نہیں سنی کہ روس نے مداخلت کرکے ٹرمپ کی مدد کی، تاکہ اُن کی مدِ مقابل ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو شکست دی جاسکے۔
سیشنز کی گواہی سے چند ہی گھنٹے قبل معاون اٹارنی جنرل، روزنسٹائن نے سینیٹ کی ایک دوسری قائمہ کمیٹی کی سماعت کے دوران بتایا کہ ’’کسی معقول ثبوت کے بغیر‘‘ وہ ٹرمپ کی جانب سے مولر کو عہدے سے ہٹانے کی کسی کوشش کو نظرانداز کر دیں گے۔
روزنسٹائن نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے کسی حکم نامے کو نہیں مانیں گے جس میں بغیر کسی معقول وجہ کے مولر کو فارغ کرنے کے لیے کہا جائے، اور یہ کہ اس وقت ایسی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔
اس سے قبل، سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ، ری پبلیکن پارٹی کے رچرڈ بَر نے سیشنز سے کہا کہ یہ سماعت ’’حقیقت اور افسانے کو علیحدہ کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے‘‘؛ اور یہ ’’اخبارات میں شائع ہونے والے متعدد الزامات کی وضاحت کو ریکارڈ پر لانے کا ایک موقع ہے‘‘۔