رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری | پیکا ترمیمی بل کی سینیٹ سے منظوری؛ واک آؤٹ اور 'بوٹوں کی خوشبو' کا طعنہ


 متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے سینیٹ میں پیش کیا۔
متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے سینیٹ میں پیش کیا۔

  • ڈیجیٹل نیشن بل کی منظوری کے بعد پیکا ترمیمی بل 2025 منظوری کے لیے وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا ۔
  • اس بل کی صحافتی تنظیموں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت مخالفت کی جا رہی ہے اور اس بل کو 'کالا قانون' قراردیا جا رہا ہے۔
  • پیکا ترمیمی بل منگل کو جیسے ہی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو اس بل کے خلاف صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کر دیا۔
  • اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ یہ قانون بغیر مشاورت کے پاس کرایا جا رہا ہے اس بل کا مقصد ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کرنا ہے ۔
  • عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان نے کہا کہ اس بل میں سے 'بوٹوں کی خوشبو' آ رہی ہے۔

اسلام آباد -- عام طور پر سینیٹ کا اجلاس مقررہ وقت پر شروع ہو جاتا ہے لیکن منگل کو سینیٹ کا اجلاس لگ بھگ 12 منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ ڈپٹی چیئرمین کی صدارت میں شروع ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں وقفہ سوالات کی کارروائی میں ارکان کی وہ دلچسپی نظر نہیں آ رہی تھی جو عام طور پر نظر آتی ہے۔

پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات کی کارروائی کو ' حکومتی احتساب' کی کارروائی کہا جاتا ہے لیکن جب پہلے سوال کو ٹیک اپ کیا گیا تو سوال پوچھنے والے رکن شہادت اعوان نے سوال مؤخر کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ میرا یہ اہم سوال ہے متعلقہ وزیر جواب دینے کے لیے موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس کو مؤخر کیا جائے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 منظوری کے لیے پیش کیا تو پی ٹی آئی کے سینیٹرز اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کرنے لگے۔

اپوزیشن ارکان بلوں کی کاپیوں سے ڈیسک بجا رہے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ بل پر بات کرنے دی جائے تاہم اپوزیشن کو بل پر بات کرنے کی اجازت نہیں مل سکی۔ لیکن اس بل میں ترامیم جمع کرانے کے باعث جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ کو ترامیم پیش کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔

'بوٹوں کی خوشبو'

کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ بل صوبوں کے دائرہ کار میں مداخلت ہے اس کو مسترد کیا جانا چاہیے۔ جب کامران مرتضیٰ ترامیم پر بات کر رہے تھے تب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر ایمل ولی خان کامران مرتضیٰ کے مائیک پر بولنا شروع ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بل کے ذریعے اظہارِ رائے پر پابندی لگ رہی ہے ۔اس سے' بوٹوں' کی خوشبو آ رہی ہے ہم اس بل کے خلاف واک آؤٹ کرتے ہیں جس کے بعد اے این پی کے سینیٹرز واک آؤٹ کر گئے ۔

پی ٹی آئی کے ارکان ڈپٹی چیئرمین کی ڈائس کے سامنے آ کر احتجاج کر رہے تھے اس دوران اپوزیشن لیڈر شبلی فراز سیکریٹری سینیٹ سے بات کرتے دکھائی دیے جس کے بعد ان کو سیکریٹری سینیٹ پر سخت برہم ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس طرح جب سینیٹر فلک ناز کی بھی سیکریٹری سینیٹ کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی تو ڈپٹی چیئرمین سیدال خان ناصر نے ہدایت کی کہ "آپ اپنی نشست پر جائیں نہیں تو کارروائی کروں گا۔"

سینیٹ نے کامران مرتضیٰ کی ڈیجیٹل نیشن بل میں ترامیم کثرتِ رائے سے مسترد کر دیں اور بل سینیٹ سے بھی منظور ہو گیا۔

صرف 15 منٹ میں منظور ہونے والا ڈیجیٹل نیشن بل اب صدر پاکستان کو دستخط کے لیے جائے گا صدر کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔

پیکا ترمیمی بل کی منظوری اور ہنگامہ آرائی

ڈیجیٹل نیشن بل کی منظوری کے بعد پیکا ترمیمی بل 2025 منظوری کے لیے وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا ۔

اس بل کی صحافتی تنظیموں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے 'کالا قانون' قراردیا جا رہا ہے۔

پیکا ترمیمی بل منگل کو جیسے ہی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو اس بل کے خلاف صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کر دیا۔

سابق وزیر اطلاعات شیری رحمان صحافیوں سے بات چیت کے لیے ایوان سے باہر آئیں اور کہا کہ صحافی اپنی ترامیم دیں جو بل کی منظوری کے بعد بھی ہوسکتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بعض صحافیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ یہ بل 'جہاں' سے آیا ہے شاید ان کے فیصلے کے خلاف جانا ان بس کی بات نہیں ہے۔ اگر ان کا بس چلتا تو صحافیوں سے مذاکرات تک ہی بل کی منظوری روک دی جاتی ۔

اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ یہ قانون بغیر مشاورت کے پاس کرایا جا رہا ہے اس بل کا مقصد ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کرنا ہے ۔

اس طرح شور شرابے اور احتجاج کے باوجود 22 منٹ میں پیکا ترمیمی بل سینیٹ سے بھی منظور کر لیا گیا۔

پیکا ترمیمی ایکٹ ہے کیا؟

ترمیمی بل میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین کے آن لائن تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔

غیر قانونی اور اشتعال انگیز مواد کو ریگولیٹ کرے گی۔اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کرے گی اور اس کے پاس یہ رجسٹریشن منسوخ یا معطل کرنے کا اختیار ہو گا۔ اتھارٹی کے پاس ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جزوی اور مکمل بلاک کرنے کا بھی اختیار ہو گا۔

اتھارٹی کسی درخواست پر ایکشن لے سکے گی، خلاف ورزی پر جرمانہ کرے گی اور اتھارٹی متعلقہ حکام کو غیر قانونی اور توہین آمیز مواد کو 30 روز کے لیے بلاک کرنے یا ہٹانے کی ہدایت کرے گی۔

جعلی یا غلط معلومات سے متاثرہ شخص معلومات کو بلاک کرنے یا ہٹانے کی اتھارٹی کو درخواست دے گا، اتھارٹی 24 گھنٹے میں اس پر فیصلہ کرے گی ۔اتھارٹی میں چئیرمین سمیت نو ارکان ہوں گے۔

سیکریٹری داخلہ ، چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) بھی اتھارٹی میں شامل ہوں گے۔ چیئرمین اور ارکان کا تقرر پانچ سال کے لیے ہو گا۔

اتھارٹی میں پریس کلب کا رجسٹرڈ صحافی ، سافٹ وئیر انجینئر، وکیل ، سوشل میڈیا پروفیشنل ، آئی ٹی پروفیشنل بطور ممبران شامل ہوں گے۔

اتھارٹی کے فیصلے کثرت رائے سے ہوں گے، چیئرمین کے پاس غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے فوری ایکشن لینے کا خصوصی اختیار ہو گا۔ البتہ اس کی اتھارٹی 48 گھنٹے میں توثیق کرے گی۔

اتھارٹی ایسے مواد کو بلاک کرے گی یا ہٹائے گی جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو۔ عوام کو قانون کی خلاف ورزی کرنے یا قانون ہاتھ میں لینے پراکسائے۔

ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جس کا مقصد عوام ، افراد ، گروہ ، حکومتی آفیشل یا اداروں کو ڈرانا ، دہشت زدہ کرنا یا مجبور کرنا ہو۔ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جو عوام کو سرکاری یا نجی پراپرٹی تباہ کرنے پر اکسائے۔

صحافی پیکا ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:25 0:00

ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جو مذہب ، فرقے ، نسل کے خلاف توہین یا نفرت پر اُکسائے جس سے تشدد کو ہوا ملے۔

ججز ، آرمڈ فورسز ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے خلاف بہتان لگائے والا مواد بلاک کیا جائے گا ۔ دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے یا ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف تشدد پر اکسانے والا مواد بھی بلاک کیا جائے گا۔

اسپیکر اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف شدہ کارروائی کو سوشل میڈیا پر نشر نہیں کیا جائے گا۔ کالعدم تنظیموں اور ان کے نمائندوں کے بیانات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نشر نہیں کیے جائیں گے۔

سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بنائی جائے گی۔ اتھارٹی کی ہدایت پر عمل نہ ہونے یا خلاف ورزی پر اتھارٹی ٹربیونل سے رُجوع کرے گی۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونلز میں ہائی کورٹ کا جج چیئرمین ہو گا۔ ٹربیونل میں صحافی اور سافٹ ویئر انجینئر بھی شامل ہوں گے۔

اتھارٹی سے متاثرہ فریق ٹربیونل سے رُجوع کر سکے گا۔ ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف متاثرہ شخص 60 روز میں سپریم کورٹ سے رُجوع کر سکے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG