رسائی کے لنکس

اعلیٰ عدلیہ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کا بل سینیٹ سے منظور


پارلیمان سے منظور کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت وقتاً فوقتاً ایک سرکاری اعلامیے کی ذریعے اس بات کا تعین کرے گی کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے دائرہ کار کو کون سے سے قبائلی علاقوں میں کس تاریخ  سے توسیع دی جائے گی۔

پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا ' سینیٹ' نے سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے دائرۂ کار کو ملک کے قبائلی علاقوں (فاٹا) تک توسیع دینے کا بل منظور کر لیا ہے۔

یہ بل وفاقی وزیر قانون بشیر محمود ورک نے جمعے کو ایوان میں پیش کیا جسے بعد ازاں ایوان نے منظور کر لیا۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کی منظور دیے چکی ہے اور صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن جائے گا۔

بعض سیاسی و سماجی حلقوں نے اس اقدام کو اہم قرار دیتے ہوئےحکومت پر زور دیا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے دائرہ کار کو پورے فاٹا میں ایک ساتھ توسیع دینے اور دیگر اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدام کرے۔

واضح رہے کہ پارلیمان سے منظور کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت وقتاً فوقتاً ایک سرکاری اعلامیے کی ذریعے اس بات کا تعین کرے گی کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے دائرہ کار کو کون سے سے قبائلی علاقوں میں کس تاریخ سے توسیع دی جائے گی۔

پاکستان کے سابق سینیٹر اور عوامی نیشل پارٹی کے راہنما افراسیاب خٹک نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’ عدلیہ کے دائرہ کار کو حکومت ایک تحصیل تک بھی پھیلا سکتی ہے ایک ایجنسی تک بھی پھیلا سکتی ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ فوراً سارے فاٹا میں اعلیٰ عدلیہ کا دائر ہ کار کو پھیلا دیا جائے گا اس میں کچھ حدودوقیود ہیں ہم چاہیں گے کہ حکومت انہیں دور کر کے سارے فاٹا میں ایک ہی وقت میں عدلیہ کے دائرہ کار کو توسیع دیے اور اس کے لیے راستہ ہموار کرے ۔‘

دوسری طرف سیئنر تجزیہ کار خادم حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس کے ساتھ ساتھ فاٹا میں انتظامی اور سیاسی ڈھانچے کے لیے تجویز کی گئی اصلاحات پر عمل فوری عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔

’ ایف سی آر(فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) کو ختم کرنا، آرٹیکل 247 میں ترمیم کرنا اور فاٹا کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے معاملے کو حل کرنا، فاٹا میں استحکام اور بہتری لانے کے لیے ضروری ہیں۔"‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو فاٹا میں تعمیر ترقی اور مستقل بنیادوں پر امن و امان کا قیام ایک چیلنج ہو گا۔

تاہم پاکستان کے سابق وزیرِ قانون اور سینئر قانون دان ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ فاٹا میں دیگر مجوزہ اصلاحات کو عملی شکل دینے کے معاملے میں حکومت کے لیے اب مشکل نہیں ہو گی۔

’ بہر حال یہ پہلا قدم ہے اور فاٹا کو کسی ایک صوبے میں یا وفاق میں عوام کی رائے سے شامل کر دینا چاہیے اس کا فائدہ یہ ہو گا یہ علاقے قومی دھارے میں شامل ہو جائیں گے اگرچہ اس کی راہ میں کئی طرح کی مشکلات بھی ہیں کیونکہ وہاں کا موجودہ نظام بہت پرانا ہے اس کو آہستہ آہستہ بتدریج آگے بڑھانا ہو گا لیکن اب مجھے اس میں کوئی دقت نظر نہیں آتی ہے۔‘

فاٹا سے تعلق رکھنے سیاسی و سماجی حلقے قبائلی علاقوں کو ملک کے مرکزی دھارنے میں لانے کے مطالبات کرتے آ رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے متعدد بار کہا جا چکا ہے کہ وہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے اور دیگر آئینی، قانونی اور انتظامی سطح پر مرحلہ وار وسیع اور جامع اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

دوسری طرف فاٹا میں اصلاحات، خاص طور پر قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم پر کرنے پر کچھ اختلافات ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتیں اس حق میں ہیں کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔ تاہم بعض سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ فاٹا کے انضمام کے فیصلے سے قبل ریفرنڈم کرایا جانا چاہیے

XS
SM
MD
LG