سپریم کورٹ نے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو صوبۂ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے متعلق درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے درخواست کو کھلی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم نہ کرنے کے خلاف 23 نومبر کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر درخواست میں صدرِ مملکت، سیکرٹری وزارتِ قانون و انصاف، سیکرٹری وزارت سیفران اور انچارج فاٹا سیکریٹریٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت فاٹا پیکج پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہے حالاں کہ فاٹا اصلاحات پر عمل درآمد ایک قومی مسئلہ ہے لیکن بوجوہ اس معاملے کو سیاسی بنا دیا گیا ہے۔
درخواست میں چیئرمین تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ آئین تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کے لیے اپنی تمام آئینی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے اور عدالت آنے سے پہلے تمام فورمز پر معاملہ اٹھا چکے ہیں۔
درخواست میں عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ صدر مملکت کو فاٹا میں امن اور گورننس کے لیے قانون سازی کا اختیار ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا حکم جاری کرے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے عمران خان کی درخواست پر اعتراضات عائد کیے تھے جس کے خلاف عمران خان نے درخواست دائر کی تھی۔
بدھ کو عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل بابر اعوان چیف جسٹس ثاقب نثار کے چیمبر میں پیش ہوئے جہاں درخواست کی ان چیمبر سماعت ہوئی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے درخواست کو کھلی عدالت میں مقرر کرنے کے لیے رجسٹرار آفس کو حکم جاری کردیا۔
گزشتہ ماہ کراچی میں ایک تقریب سے خطاب میں عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم نہ کرنے سے قانونی خلا پیدا ہوگا اور خطے میں دہشت گردوں کی واپسی کا امکان بڑھ جائے گا۔
قومی اسمبلی سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار فاٹا تک بڑھانے کا بِل پہلے ہی منظور کرچکی ہے۔
تام حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حلیف جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کے خلاف ہے جس کے باعث مجوزہ قانون سازی کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتیں فاٹا انضمام کا بِل پیش نہ کرنے پر متعدد بار قومی اسمبلی میں احتجاج اور ایوان سے واک آؤٹ کرچکی ہیں۔