رسائی کے لنکس

میانمار: آنگ سان سوچی کی جماعت کے ایک اور رہنما دورانِ حراست ہلاک


میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد گزشتہ کئی روز سے احتجاج جاری ہے۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد گزشتہ کئی روز سے احتجاج جاری ہے۔

میانمار کی معروف رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت 'نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی (این ایل ڈی)' کے ایک اور رہنما دورانِ حراست انتقال کر گئے ہیں۔ دوسری جانب میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد نئی حکومت کے خلاف احتجاج بھی جاری ہے۔

'وائس آف میانمار' اور دیگر میڈیا اداروں کے مطابق زا میت لِن کا انتقال منگل کو اس وقت ہوا جب وہ ینگون میں پولیس کے چھاپے کے دوران فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار ہو گئے تھے اور زیرِ حراست تھے۔

ملک کی تحلیل کر دی گئی پارلیمنٹ کے ایک رکن با میو تھین نے کہا ہے کہ زا میت لِن مسلسل فوجی بغاوت کے خلاف جاری احتجاج میں حصہ لے رہے تھے۔

زا میت کے ایک دوست مونگ سونگکھا کے مطابق اہلِ خانہ کو منگل کو لِن کی میت لے جانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ لیکن انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ زا کی موت کیسے واقع ہوئی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی این ایل ڈی کے ایک رہنما کھین مونگ لیٹ کی حراست میں موت ہو چکی ہے۔ این ایل ڈٰی کے ایک قانون ساز نے وی او اے کی برما سروس کو تصدیق کی ہے کہ ان کی موت ہفتے کی رات کو گرفتاری کے بعد ہوئی۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد کیا صورتِ حال ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:32 0:00

دو رہنماؤں کی دورانِ حراست موت کے بعد یہ سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں کہ کیا حکومت حراست میں لیے گئے مظاہرین پر تشدد یا انہیں قتل کر رہی ہے۔ البتہ پولیس یا فوج نے ان ہلاکتوں پر میڈیا کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا گیا ہے۔

دوسری جانب میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج اب بھی جاری ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔

یہ اطلاعات بھی آئی ہیں کہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے اعلیٰ حکام نے سیکیورٹی اہلکاروں کو مظاہرین پر فائرنگ کے احکامات دیے جنہیں کچھ اہلکاروں نے ماننے سے انکار کر دیا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے ایسے ہی ایک پولیس اہلکار کی کہانی شائع کی ہے جنہیں "مظاہرین پر فائرنگ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن انہوں نے وہ نہیں مانا۔"

مذکورہ پولیس اہلکار کا نام تھا پینگ ہے جو اب بھارت میں مقیم ہیں۔

تھا پینگ کے مطابق انہیں 27 فروری کو میانمار کے ایک قصبے کھمپت میں اپنی سب مشین گن سے مظاہرین پر فائرنگ کرنے کے احکامات ملے تھے جنہیں ماننے سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔

کیا امریکہ میانمار میں کوئی مؤثر تبدیلی لا سکتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:53 0:00

27 سالہ پولیس اہلکار نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ اس کے اگلے ہی دن ایک پولیس افسر نے انہیں فون کیا اور دوبارہ پوچھا کہ کیا وہ فائرنگ کے احکامات پر عمل درآمد کریں گے؟ تھا پینگ کے بقول انہوں نے دوبارہ منع کیا اور پھر استعفیٰ دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ یکم مارچ کو اپنی فیملی اور اپنا گھر چھوڑ کر تین دن کا سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ زیادہ تر سفر انہوں نے رات میں طے کیا تاکہ پہچانے نہ جا سکیں اور پھر بھارت کی سرحد عبور کر کے ریاست میزورم میں پناہ لی۔

تھا پینگ نے منگل کو 'رائٹرز' کو بتایا کہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے اپنا نام بھی مکمل نہیں بتایا تاکہ ان کے گھر والوں پر کوئی آنچ نہ آ سکے۔

البتہ 'رائٹرز' نے ان کا قومی شناختی کارڈ اور پولیس کے محکمے کا کارڈ دیکھا ہے جس سے ان کی شناخت کی تصدیق ہوتی ہے۔

تھا پینگ نے بتایا کہ ان کے چھ دیگر ساتھیوں نے بھی اپنے اعلیٰ افسر کے یہی احکامات ماننے سے انکار کیا تھا۔ البتہ انہوں نے ان اہلکاروں کے نام نہیں بتائے۔

رائٹرز نے میزورم کی پولیس خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تھا پینگ کی کہانی واقعات سے ملتی جلتی ہے جو دستاویز کے مطابق میانمار سے بھارت آنے والے تین مزید اہلکاروں نے بیان کیے ہیں۔

میانمار میں سیکیورٹی فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے ساتھ ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کر رہی ہے جس سے کئی مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔
میانمار میں سیکیورٹی فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے ساتھ ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کر رہی ہے جس سے کئی مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔

میزورم کے پولیس حکام کی جانب سے مرتب کردہ اس دستاویز میں میانمار سے آنے والے چار اہلکاروں کی شناخت اور ان کے بیان کردہ واقعات درج ہیں کہ وہ کیوں وہاں سے فرار ہوئے۔

ان اہلکاروں نے میزورم کی پولیس کو ایک مشترکہ بیان میں بتایا ہے کہ "میانمار میں سول نافرمانی کی تحریک اور فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرے تقویت پکڑ رہے ہیں اور ہمیں مظاہرین کو گولی مارنے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔"

"اس صورتِ حال میں ہم میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کو گولی ماریں جو پرامن احتجاج کر رہے ہیں۔"

میانمار کی فوج، جس نے یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کیا تھا، نے رائٹرز کی جانب سے رابطہ کیے جانے کے باوجود اس معاملے پر کوئی بیان یا تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

البتہ فوجی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ "باغی مظاہرین" کے خلاف بہت برداشت سے کام لے رہے ہیں۔ فوجی حکام نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ مظاہرین پولیس پر حملے کر رہے ہیں اور قومی سیکیورٹی اور استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ میانمار میں انٹرنیٹ سروسز بھی متاثر ہیں۔ شہریوں کو شکایت ہے کہ روز رات کے وقت انٹرنیٹ نہیں چلتا اور صبح میں سروس لوٹ آتی ہے۔

XS
SM
MD
LG