رسائی کے لنکس

مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ


  • سنی اتحاد کونسل نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں نہ ملنے پر سپریم کورٹ سے رُجوع کیا تھا۔
  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے منگل کو کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
  • سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اور تحریکِ انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب الجواب دلائل دیے۔
  • اگر الیکشن کمیشن نے کوئی چیز ہم سے چھپائی ہے تو یہ سنجیدہ معاملہ ہے: جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد _ پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے منگل کو مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر سماعت کی۔ اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اور تحریکِ انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب الجواب دلائل دیے۔

فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن فیصلہ سنانے سے پہلے آپس میں مشاورت کی جائے گی۔

بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے جواب الجواب میں کہا کہ پی ٹی آئی نے 263 ٹکٹ اپنے امیدواروں کو جاری کیے تھے جس پر جسٹس میاں علی مظہر نے استفسار کیا کہ "مگر آپ کا اپنا ڈیکلیریشن بھی پی ٹی آئی نظریاتی کا ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وہ ریکارڈ سے دکھانا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ڈیکلیریشن دیا ہوا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ یہ ریکارڈ کیوں دکھا رہے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ الیکشن کمیشن نے عدالت میں مکمل ریکارڈ پیش نہیں کیا۔

بیرسٹر سلمان کے مطابق الیکشن کمشین نے اپنے حکم نامے کے ذریعے پارٹی امیدواروں کو آزاد قرار دیا۔ کمیشن نے جو چارٹ پیش کیا اس میں چیزیں چھپائی گئیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں آپ آگے چلیں اب یہ آپ نے پیش کر دیا ناں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ اگر الیکشن کمیشن نے کوئی چیز ہم سے چھپائی ہے تو یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے الیکشن کمیشن بطور ادارہ نہیں صرف کیس جیتنے آیا ہے۔

رواں برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو بطور جماعت الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ پی ٹی آئی آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔

انتخابات میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا تھا جن کی بڑی تعداد انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ بعدازاں تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر لیا تھا۔

'سنی اتحاد کونسل میں جانا درست تھا'

انتخابات میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو الیکشن کمیشن نے اعتراض لگا کر وہ نشستیں بھی ان جماعتوں میں تقسیم کر دیں جو سنی اتحاد کونسل کو بطور جماعت ملنی تھیں۔

منگل کو سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے پی ٹی آئی کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ پی ٹی آئی کے ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت درست فیصلہ تھا؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا جب الیکشن کمیشن نے ہمیں آزاد ڈیکلیئر کر دیا تو سنی اتحاد کونسل میں جانا درست تھا۔ لیکن اس سے پہلے جو ہوا وہ الیکشن کمیشن کی غلطی تھی۔

جسٹس جمال نے وکیل کو کہا کہ آپ سوچ کر جواب دیں کیا پی ٹی آئی کو یہ نشستیں واپس نہیں چاہییں؟ جس پر وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ اگر عدالت آئینی تشریح سے ایسے نتیجے پر پہنچے تو مجھے انکار نہیں۔ یہ عدالت میرے دلائل یا میری استدعا تک محدود رہنے کی پابند نہیں۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اس عدالت کو الیکشن کمیشن کی غلطی سدھارنی نہیں چاہیے؟ کمیشن نے ایک جماعت کو الیکشن سے نکال کر سنگین غلطی کی۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت آئین کے مطابق جو بھی فیصلہ کرنا چاہے کر سکتی ہے لیکن مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بنتی ہیں۔

بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ کسی پارٹی میں شمولیت کے لیے جنرل نشست ہونا لازمی قرار دینا غیرآئینی ہے۔ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں یہ الیکشن کمیشن کا مفروضہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترجیحی فہرست نہ جمع کرانے کے باوجود مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو مل سکتی تھیں۔ 2019 میں یہ ہو چکا تھا۔ الیکشن ایکٹ کی سیکشن 104 میں بھی پابندی نہیں کہ مخصوص نشستوں کی فہرست کب دینی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG