رسائی کے لنکس

ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکال کر الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کی: جسٹس اطہر من اللہ


  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • ایک جماعت کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے ہی باہر کر دیا گیا۔ آئین کی بنیاد ہی جمہوریت پر کھڑی ہے: جسٹس اطہر من اللہ
  • فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں: جسٹس اطہر من اللہ
  • عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
  • کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد قرار نہیں دیا؟ جسٹس منیب اختر

ویب ڈیسک _ پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے نکال کر الیکشن کمیشن نے خود آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔

منگل کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک جماعت کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے ہی باہر کر دیا گیا۔ آئین کی بنیاد ہی جمہوریت پر کھڑی ہے۔

اُنہوں نے سوال کیا کہ بنیادی حقوق کے محافظ ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کریں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق منگل کو کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکلا بھی عدالت میں موجود تھے۔

سنی اتحاد کونسل نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں نہ دینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں۔ موجودہ صورتِ حال بن سکتی ہے، یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا۔

اُن کا کہنا تھا کہ آئین میں کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں۔ بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے آئین موجود ہے۔

'اس مرتبہ آزاد ارکان کی تعداد زیادہ ہے'

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں کبھی آزاد ارکان کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا۔ اس مرتبہ آزاد ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟

اُن کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟

واضح رہے کہ رواں برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو بطور جماعت الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ پی ٹی آئی آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔

انتخابات میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا تھا جن کی بڑی تعداد انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ بعدازاں تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر لیا تھا۔

'پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے'

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے۔ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے۔ آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن کے اس آرڈر سے رنجیدہ ہے جو پشاور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔ اس عدالت کے سامنے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو قانونی قرار دیں؟ انصاف کے اصول کے لیے آئین و قانون پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی۔ کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیر آئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟

'نظریۂ ضرورت کے تمام فیصلوں کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے'

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے۔ نظریۂ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے۔ کسی جج سے بدنیتی منسوب نہیں کر رہا۔ سب ججز کی جو جو رائے ہے وہ ان کی جینوئن رائے ہے۔

عدالتی کارروائی کے بعد چیف جسٹس نے کیس کی سماعت نو جولائی تک کے لیے ملتوی کر دی۔

فورم

XS
SM
MD
LG