رسائی کے لنکس

ایران: صدارتی مباحثے میں امیدواروں کے ایک دوسرے پر نا اہلی کے الزامات


ایران کے صدارتی امیدوار مسعود پزشکیان (دائیں)، سعید جلیلی (بائیں)۔
ایران کے صدارتی امیدوار مسعود پزشکیان (دائیں)، سعید جلیلی (بائیں)۔
  • ایران کے صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ جمعے کو ہوگا جس سے قبل دونوں امیدواروں میں مباحثہ ہوا ہے۔
  • دوسرے مرحلے میں اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان اور سخت گیر مؤقف کے حامل سعید جلیلی مدِ مقابل ہوں گے۔
  • مسعود پزشکیان نے اپنے حریف پر تنقید میں کہا کہ وہ ناتجربہ کار ہیں جنہوں نے کبھی کسی کمپنی کا انتظام بھی نہیں سنبھالا۔
  • سعید جلیلی نے الزام عائد کیا کہ پزشکیان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اگر وہ صدر بنے تو ملک کو تنزلی کی طرف جائے گا۔

ویب ڈیسک—ایران کے صدارتی امیدواروں نے ٹی وی مباحثے کے دوران ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کیے اور انتظامِ حکومت چلانے سے متعلق کوئی منصوبہ نہ ہونے کے الزامات عائد کیے۔

ایران کے صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ جمعے کو ہوگا جس میں اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان اور ایران کے جوہری مذاکرات کا حصہ رہنے والے سخت گیر مؤقف کے حامل سعید جلیلی مدِ مقابل ہوں گے۔

انتخابات سے قبل پیر کو دونوں امیدوار مقامی ٹی وی مباحثے میں آمنے سامنے آئے۔ یہ مباحثہ دو گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا۔

مسعود پزشکیان نے اپنے حریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ناتجربہ کار ہیں جنہوں نے کبھی کسی کمپنی کا انتظام بھی نہیں سنبھالا تو ایسا شخص کس طرح ملک چلائے گا۔

سعید جلیلی نے دفاع کرتے ہوئے اپنے کریئر اور کئی اہم پوزیشنوں پر کام کرنے کا ذکر کیا جس میں ایران کے مغربی ممالک کے ساتھ جوہری مذاکرات بھی شامل تھے جس میں جلیلی نے ایران کی نمائندگی کی تھی۔

سعید جلیلی 1980 کی دہائی میں ایران-عراق جنگ کے دوران ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے تھے اس لیے انہیں مقامی سطح پر انہیں 'زندہ شہید' بھی کہا جاتا ہے جب کہ مغربی سفارت کاروں میں وہ ایک سخت گیر مؤقف رکھنے والی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

مسعود پزشکیان نے اپنے حریف سے سوال کیا کہ آپ کے پاس جوہری معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کیا منصوبہ ہے؟ جس پر سعید جلیلی نے کہا کہ وہ کوئی بھی معاہدہ بھرپور قوت کے ساتھ کریں گے۔ تاہم انہوں نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔

سعید جلیلی نے الزام عائد کیا کہ پزشکیان کے پاس ملک کا انتظام چلانے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے، اگر وہ صدر بنے تو ملک کو پیچھے کی طرف دھکیل دیں گے۔

واضح رہے کہ ایران کے سابق صدر حسن روحانی کے دورِ حکومت میں (21-2013) ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران پر عائد پابندی اٹھانے کے عوض یورینیم کی کم افزودگی پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا تھا۔

جلیلی نے دعویٰ کیا کہ عوام کی حمایت سے ایران سالانہ معاشی ترقی کی شرح آٹھ فی صد حاصل کر لے گا۔

پزشکیان نے اس دعوے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر جلیلی اس دعوے میں ناکام رہے تو حکام کو چاہیے کہ انہیں پھانسی پر چڑھا دیں۔

جلیلی نے کہا کہ اگر معیشت کی کامیابی چاہتے ہیں تو ایران کو ایک متحرک خارجہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔

انہوں نے امریکہ اور مغربی ملکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معاشی تعلقات ان ممالک کے ساتھ محدود نہیں ہونے چاہییں جن سے آپ کے تعلقات بہتر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران کو چاہیے کہ دنیا کے ان 200 ممالک کی طرف دیکھے جن سے خارجہ تعلقات بہتر ہونے چاہییں۔

مسعود پزشکیان نے کہا کہ ان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد دنیا کے ساتھ رابطوں پر مبنی ہو گی اور اس میں ایران سے پابندیاں اٹھانے کے لیے مذاکرات بھی شامل ہوں گے۔

دونوں امیدواروں نے ملک کے غریب عوام، ملازمین، خواتین، نسلی گروہ اور اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا اور عزم کیا کہ وہ ملک میں بہتر اور تیز انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔

دونوں امیدواروں نے 28 جون کو صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کم ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

واضح رہے کہ ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی 19 مئی کو ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ رئیسی کی موت کے بعد اس منصب کے لیے 28 جون کو صدارتی انتخابات ہوئے لیکن ووٹنگ ٹرن آؤٹ لگ بھگ 40 فی صد رہا۔

ایران کی تاریخ کا یہ کم ترین ووٹنگ ٹرن آؤٹ ہے۔ اس مرحلے میں شامل چار میں سے کوئی بھی امیدوار 50 فی صد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کر سکا تھا۔

ایران کے انتخابی قواعد کے مطابق کسی بھی امیدوار پر لازم ہے کہ وہ مجموعی ووٹوں میں سے 50 فی صد سے زیادہ حاصل کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ابتدائی دو نمبروں پر آنے والے امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے۔

صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر دو کروڑ 45 لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے جن میں سے ایک کروڑ چار لاکھ ووٹ حاصل کر کے مسعود پزشکیان پہلے اور سعید جلیلی نوے لاکھ چالیس ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھے۔

انتخاب کی دوڑ میں شامل پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف 33 لاکھ اور شیعہ عالمِ دین مصطفیٰ پور محمدی نے دو لاکھ چھ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG