سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے خلیج تعاون کونسل کے رکن ملک قطر کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں ہونے والے معاہدے کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور کویت نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرتے ہوئے زمینی، فضائی اور بحری سرحدیں کھول دی ہیں۔
پاکستان نے سعودی عرب اور قطر کے درمیاں تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے۔
دفترِ خارجہ نے بیان میں کہا ہے کہ خلیج تعاون کونسل کے اس فیصلے سے تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان تقریباََ چار سال سے جاری متنازع امور حل کرنے میں مدد ملے گی۔
مشرقِ وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے اس پیش رفت کو خطے کے تناظر میں اہم قرار دیتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ قطر سے تعلقات کی بحالی سے سعودی عرب نے اپنے مسائل میں کمی کی ہے۔ اس سے خطے کو درپیش دیگر معاملات کے حل میں مدد ملے گا۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے جون 2017 میں قطر کے ساتھ ایران کے قریب ہونے اور شدت پسند گروہوں کی مبینہ حمایت کے الزام پر تعلقات منقطع کیے تھے۔
قطر دہشت گردی میں معاونت کے الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔ تاہم عرب ممالک کی اسلامی تحریکوں کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوا۔ جسے مشرقِ وسطیٰ کی بعض ریاستیں حکومت کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ سعودی اتحاد کی جانب سے پابندیوں کے بعد قطر نے ترکی اور ایران سے تعلقات استوار کیے۔
سعودی عرب کی جانب سے تعلقات کی بحالی کے اعلان کے بعد قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچے جہاں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے قطر کے امیر کا استقبال کیا تھا۔
کیا سعودی عرب قطر کو تنہا کرنے میں ناکام رہا؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ کشیدگی کے خاتمے میں امریکہ کا کردار رہا ہے جو کہ نئی امریکی انتظامیہ کے لیے باعث اطمینان ہو گا۔
پاکستان کی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان صلح دیر آید درست آید کے مصداق ہے جس کا پاکستان خیر مقدم کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ یہ ایک بلا وجہ لڑائی تھی جو کہ قطر کے اتحادی ممالک کی جانب سے اچانک الزامات کی بوچھاڑ سے شروع ہوئی۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس ساری صورتِ حال میں قطر اپنی پالیسی پر قائم رہا اور مخالفین نے حقائق سامنے رکھتے ہوئے پالیسی میں تبدیلی کی ہے اور ایک کشیدگی کا محاذ ختم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس غیر ضروری سفارتی و سیاسی جنگ کا خاتمہ مسلم ممالک اور خلیج اتحاد کے لیے اچھی پیش رفت ہے۔
عرب امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کامران بخاری کہتے ہیں کہ سعودی عرب قطر کو تنہا کرنے میں ناکام رہا اور دوحہ کا بائیکاٹ بے سود ہو گیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کامران بخاری نے کہا کہ یمن جنگ اور ترکی و ایران کے خطے میں بڑھتے اثر و رسوخ نے سعودی عرب کو مجبور کیا کہ وہ قطر کے ساتھ اپنے معاملات کو حل کرے اور نئی امریکی انتظامیہ کے آنے کے تناظر میں یہ ایک متوقع اقدام تھا۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ قطر خلیج تعاون کونسل کا رکن رہنے کے ساتھ ساتھ آزاد خارجہ پالیسی چاہتا ہے اور اب سعودی عرب نے ایک طرح سے قطر کی اس پالیسی کو تسلیم کر لیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ قطر کے ساتھ کچھ پرانی کشیدگیاں برقرار رہیں گی تاہم سعودی عرب نے اس حالیہ اقدام سے اپنے مسائل میں سے ایک مسئلے کو حل کرلیا ہے تاکہ بڑے مسائل کو دیکھا سکے۔
'پاکستان نے دباؤ کے باوجود قطر سے تعلقات استوار رکھے'
سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ قطر کے ساتھ خلیجی ممالک کے تنازعے میں پاکستان نے جھکاؤ کسی ایک جانب نہیں دیکھایا اور دباؤ کے باوجود قطر سے تعلقات استوار رکھے۔
وہ کہتے ہیں کہ افغان امن مذاکرات کا مرکز ہونے کے باعث بھی پاکستان کے دوحہ سے اچھے مراسم تھے جو اسلام آباد کے حق میں تھے اور اب تعلقات کی بحالی سے نئی امریکی انتظامیہ اور صدر جو بائیڈن کا درد سر بھی کم ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور قطر دونوں کا سیاسی شجرہ واشنگٹن ڈی سی سے ملتا ہے جس نے اس صلح کرانے میں سہولت کاری کی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ خلیجی ممالک کو اندازہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے ساتھ جاری گہری قربت اب صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے پر شائد جاری نہ رہ سکے اور حالات کے مطابق نئے حقائق کو محسوس کرتے ہوئے ایک کشیدگی کا خاتمہ کیا ہے۔
'ترکی اور ایران کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے'
تجزیہ کار کامران بخاری کہتے ہین کہ خلیج کی صورتِ حال کو دیکھا جائے تو ترکی اور ایران کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور عراق، شام ، یمن اور لیبیا غیر مستحکم ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسے دور میں جب ریاستیں تحلیل ہو رہی ہیں اور غیر ریاستی عناصر طاقت پکڑ رہے ہیں، امریکہ کے لیے ضروری تھا کہ اپنے خلیج کے اتحادی ممالک کے درمیان اختلاف کا خاتمہ کرائے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے قطر سے تعلقات کی بحالی کا فیصلہ یمن جنگ میں خسارے کو دیکھتے ہوئے کیا تاکہ وہ دیگر مسائل کا بہتر حل کر سکے۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان کا سعودی عرب و اتحادی ممالک پر انحصار بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس تنازعے میں واضح مؤقف نہیں اپنا سکا اور کمزور صورتِ حال کے باعث ثالثی کا کردار بھی ادا نہیں کر پایا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نے اس مشکل صورتِ حال میں درمیانہ راستہ اختیار کیا اور قطر سے محدود تعلقات استوار رکھے تاکہ سعودی عرب بھی ناراض نہ ہو۔
2017 کے وسط سے قطر کے ساتھ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کی جانب سے سفارتی، تجارتی اور فضائی تعلقات منقطع ہونے کے بعد اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے امریکہ اور کویت نے مل کر کوشش کیں۔
سعودی اتحادی ممالک نے تعلقات کی بحالی کے لیے قطر کے سامنے 13 مطالبات رکھے تھے جن میں قطر کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کو بند کرنا، مصر کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون سے تعلقات کا خاتمہ اور ترک اڈہ خالی کرانا شامل تھا۔
قطر نے بغیر کسی شرط کے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ بائیکاٹ کا مقصد اس کی سالمیت اور خودمختاری کو نقصان پہنچانا ہے۔