پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ملائیشیا میں ہونے والی اسلامی ممالک کی کوالالمپور سربراہی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پیر کو فون پر وزیراعظم مہاتر محمد سے معذرت کی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔
یہ کانفرنس 18 سے 21 دسمبر کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ہونے والی ہے۔ تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔
البتہ، ابھی تک پاکستان کے دفتر خارجہ کے طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جگہ کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کون کرے گا۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم کے دفتر سے منگل کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق مہاتیر محمد نے عمران خان کی طرف سے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے بارے میں مطلع کیا۔ ملائیشین وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کی اس کانفرنس میں شرکت اور اسلامی دنیا کی صورتِ حال کے بارے میں ان کے خیالات سننے کے منتظر تھے۔
بیان کے مطابق وزیر اعظم مہاتر محمد نے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کو مسترد کیا ہے کہ وہ اسلامی سربراہی تنظیم (او آئی سی) کے مقابلے میں نئی تنظیم کا قیام عمل میں لانا چاہتے ہیں۔
ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں 18 سے 20 دسمبر تک ہونے والی کانفرنس میں ترکی، ایران اور قطر کی قیادت کے علاوہ کئی دیگر اسلامی ملکوں کے رہنما شرکت کریں گے۔
یاد رہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد کی تجویز ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد نے رواں سال امریکہ میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کے دوران دی تھی۔
اگرچہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کر چکے تھے۔ تاہم، بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بعد اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، سعودی عرب کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، رواں ہفتے کوالالمپور میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کا یہ پانچواں اجلاس ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ملائیشیا کی حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والی یہ تنظیم کوئی نیا اسلامک بلاک بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، جیسا کے بعض حلقوں کی جانب سے تاثر دیا جا رہا ہے۔ بیان کے مطابق، اس کانفرنس کا پلیٹ فارم مذہبی معاملات زیرِ بحث لانے کے لیے نہیں بلکہ مسلم اُمہ کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔
بیان کے مطابق، اس اس کانفرنس کا پلیٹ فارم مذہبی معاملات کو زیر بحث لانے کے لیے نہیں ہے بلکہ مسلم اُمہ کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے مخصوص ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس بار ہونے والی کانفرنس میں اسلامی ممالک کے چند رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔ البتہ، اس سے قبل ہونے والی کانفرنس میں 56 اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں سعودی عرب اور بحرین کا دورہ کیا تھا، جبکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔ مذکورہ ممالک کی قیادت کو ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کے رکن پارلیمنٹ سینیٹر مشاہد حسین سید نے وزیر اعظم کا دورہ ملائیشیا ملتوی کرنے پر تنقید کی ہے۔
اپنی ایک ٹوئٹ میں مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے اس ملک کا دورہ منسوخ کیا ہے، جس نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور پاکستان فوج کے ریٹائرڈ لیفٹینٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کا تعلق سعودی عرب کے تحفظات سے ہو سکتا ہے۔
تاہم، ان کے بقول، وہ اس فیصلے کو پاکستان کے مفاد میں قرار نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملائیشیا ایسا ملک ہے جس نے کشمیر کے معاملے پر کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن، بعض خلیجی ممالک کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو متوقع حمایت نہیں ملی تھی۔
امجد شعیب کے بقول، یہ کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہے اس کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے مضمرات ہو سکتے ہیں۔ امجد شعیب کہتے ہیں کہ اگر یہ فیصلہ سعودی عرب کے کہنے پر کیا گیا ہے تو یہ مناسب نہیں ہے۔
امجد شعیب کا کہنا تھا کہ "اگر سعودی عرب یہ مطالبہ کر سکتا ہے۔ تو پھر اس کے بعد کوئی اور مطالبہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔"
دورے کی منسوخی پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ البتہ، پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کے بعض اسلامی ممالک خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کے باوجود وہ اپنی خارجہ پالیسی قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیتا ہے۔
پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کو ملائیشیا نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں بھی جموں و کشمیر میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کیا تھا۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم کے اس بیان پر بھارت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
ملائیشیا کے علاوہ ترکی نے بھی جموں و کشمیر کے تنازع پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کی تھی۔